منثوراتِ دھلی کا ایک گم گشتہ باب ۔ خواجہ شفیع دھلوی
اے وہ شخص جو دہلی کے حالات اور دوسرے شہروں پر اس کی رفعت اور شرف کے متعلق استفسار کرتا ہے، بیشک تمام شہر باندیاں ہیں اور دلی ان کی ملکہ ہے۔ بیشک دلی کی مثال ایک موتی کی سی ہے، باقی شہر نرے سیپ ہیں۔
اقتباس ۔۱۔اشعار، شاہ عبد العزیز دہلوی، ۲۔ واقعاتِ دارلحکومت دہلی،بشیر الدین احمد دہلوی، ۳۔ دہلی ۶ کیا ہے، فیروز دہلوی)۔
ہندوستان میں تہذیبی شہر اور بھی ہیں۔ لکھنؤ، حیدرآباد، بھوپال وغیرہ، مگر سبھی کسی نہ کسی طرح دلی کی تہذیب سے متاثر رہے ہیں، اور یہاں کے ہنر مندوں نے ہی وہاں بھی علوم و فنون کی داغ بیل ڈالی۔
دلّی ۔ وہ دیار کہ جہاں کا ہر نثر نگار صاحب اسلوب، با محاورہ رواں دواں نثر لکھنے والا تھا، وہ نگر کہ جس کی آبادی سات بربادیوں کی مرہون منت ہے، جہاں ہر بار لٹنے کے بعد کچھ ماتم دار ، کچھ غمخوار آئے، نظم و نثر میں کیا کیا شاہکار نہ تخلیق ہوئے، لیکن یہ سب وہ تھے، جو وہاں کے تھے۔ از کجا آید ایں آواز دوست، ہم تو واں کے نکالے ہوئے بھی نہیں پھر کس برتے پر بات کریں، تو صاحبو، جان لو، دلّی ایک شہر، ایک نگر، ایک دیار، ایک علاقہ نہیں، ایک احساس ہے، ایک کیفیت ہے جو ہر اس ذی نفس پر طاری ہو سکتی ہے جو اپنے شاندار ماضی پر فخر کرتا ہے اور اس سے کسی صورت ناتا نہیں توڑنا چاہتا، بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ بھائی جس کا ایسا شاندار ماضی ہو، جس کی تہذیب ایسی ہو کہ بزرگ بچوں کو کھانے کے آداب میں یہ تک بتلائیں کہ اگر کسی گھر موت کا کھانا کھانا تو بیٹے، بس دو چار نوالے سے زیادہ مت لینا، اور دستر خوان بڑھنے تک بچوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ایک طویل اقتباس فیروز دہلوی صاحب کا، جو کہ ضروری ہے، ملاحظہ کیجئے، سلسلہ کلام اس اقتباس کے بعد بحال کرتے ہیں،
"کسی کا بڑا لقمہ دیکھا اور ٹوکا ’’بیٹا چھوٹا نوالہ بناؤ، گال پھولا ہوا نظر نہ آئے، چباتے وقت منھ بند رہے، چپڑ چپڑ کی آواز نہ ہو، سالن/ شوربے میں ناخن نہ ڈوبیں، غوری یا طشتری میں ایک طرف سے کھانا، ہاتھ نہ بھریں، جلدی جلدی نہ کھاؤ، آخر تک رکابی میں رونق رہے، بوٹی یا سبزی کا ایک حصہ آخری لقمے میں لینا‘‘۔ اسی طرح پانی پیتے وقت کہا جاتا ’’لمبا گھونٹ نہ لو، چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں تین مرتبہ پانی پیو‘‘۔ "دسترخوان پر اگر کباب ہوتے اور کوئی بچہ طشتری سے کباب اٹھاکر روٹی پر رکھ کر کھانے کی کوشش کرتا تو اسے معیوب سمجھتے۔ (بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے دلی کے بعض گورکن اپنے مْردوں کو دفنانے کے بعد جو حاضری کا کھانا کھلاتے، وہ مٹی کی رکابی میں روٹی کے دو ٹکڑے کرکے ان پر گولے کے کباب رکھتے، اس لیے روٹی پر کباب رکھ کر کھانا برا سمجھا جاتا)۔ضمناً یہاں گورکن اور کباب والی بات آگئی۔ ہم دسترخوان کی تربیت کا ذکر کر رہے تھے کہ بڑے بچوں کو سکھاتے تھے کہ کھاتے وقت دوسروں کے کھانے پر نظر نہ ڈالو، اپنے آگے جو رکھا ہوا ہے اسے دیکھو۔ کسی دوسرے دسترخوان پر کھانا ہو تو جو میزبان پیش کرے، اسے خوشی کے ساتھ کھاؤ۔ مرچ تیز، نمک پھیکا ہو تو اسے ظاہر نہ کرو۔ کسی کھانے میں عیب نکالنا بری بات ہے۔ غمی کے کھانے میں روٹی بوٹی کی فرمائش نہ کرنا۔ چند لقمے کھانا۔ اگر تمہاری رکابی میں نلی آجائے اور دسترخوان پر مغزکش نہ ہو تو اسے رکابی یا روٹی پر نہ جھاڑنا، نہ منھ سے چوسنا۔ اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تم نے کبھی کچھ کھایا پیا نہیں"
جی، تو عرض یہ تھی کہ جہاں دستر خوان چننے سے بڑھنے تک بچوں کو ایک ایک بات، ادب آداب سمجھے جائیں، جہاں کی تہذیب اتنی ترقی یافتہ ہو کہ اس پر جتنا فخر کریں کم ہو، وہاں اگر نئی تانتی برگر کھائے اور کولا مشروبات پئے اور نہ اپنا ماضی جانے نہ ہی جاننا چاہے تو بس اقبال کا ایک شعر یاد آتا ہے؛
صاحب قرآن و بے ذوق طلب،
العجب، ثم العجب، ثم العجب !!! !!!
(یہاں سخن فہم حضرات صاحب قرآن کی جگہ صاحِب58 قِرَان58 پڑھیں اور لطف اندوز ہوں(
تو اس کیفیت کے زیر اثر، ایک طویل عرصے سے دلّی کے متعلق جو کچھ جہاں سے بھی مل سکا پڑھا، پھر دہلوی نثر نگاروں کی محفل میں زانوئے تلمذ تہ کیا، اور کیا کیا عالم میں انتخاب، دُرِ نایاب، گوہرِ عالم تاب وہاں نہ پایا، اگر خدا لگتی کہیے تو صاحبو لکھنے والے وہی تھے جو لکھ گئے ہم تو گھس کھدے ہیں جو ان کی خاک کو بھی نہ چھو پائیں!! ایسے ایسے شہ زور قلم کار، ایسا بیانیہ، کہ جس دم چاہیں لال قلعہ کی ایک جھلک دکھلانے میں بیسیوں صفحے لکھ جائیں، زیورات کا ذکر آئے تو صفحات ختم ہو جائیں بیان جاری ہو، کھانوں کا ذکر آئے تو قاموسُ الطعام بن جائیں، دلی کے رکاب داروں کی ہنرمندی کا بیان ختم نہ ہو، پھول والوں کی سیر کا ذکر کیجئے تو ہر نثر نگار اپنے ہی رنگ میں ایک منظر نگاہ کے سامنے رکھ دے، کبوتر بازی، کنکوا بازی، بنوٹ، شمشیر زنی، پہلوانی، حتیٰ کہ ٹھگوں کے واقعات تک ایسے مفصل ملیں کہ جن کی بنیاد پر "مُصطلحاتِ ٹھگی" جیسا شاہکار وجود میں آئے، الغرض شاہجہاں آباد میں 1639 ء سے آج تک کبھی بھی لکھنے اور کہنے کا کال نہ پڑا۔ داستان گو ایسے کہ ایک بارات کی روانگی کے منظر میں ساری رات بِتا دیں اور صبح تک بارات نہ چلی ہو، انصاف کیجئے گا، کسی تہذیب کے ایسے منظر نگار کہیں آپ کو ملے جو یہاں با افراط موجود تھے؟؟؟ تو صاحبان ذی علم!!! قدر نہ شناسی کا شکار ہوئے اور ہیں آج تک، وہ سب کے سب!!! آپ کو ان کے شہ پارے تو شاید مل جائیں، ان کے حالات زندگی بہت مشکل ہے کہ آپ جان سکیں۔بات کیجئے ظہیر دہلوی کی، میر باقر علی کی، ناصر نذیر فراق دہلوی کی، آغا حیدر حسن دہلوی کی، خواجہ محمد شفیع دہلوی کی، ظفر تاباں کی، منشی فیض الدین کی، سید احمد دہلوی، بشیر الدین احمد، مُلا واحدی، الغرض کیا کیا نام گنوائیں، وہ تو شکرِ خدا کہ شاہد احمد صاحب دہلوی ساقی سے وہ کام کر گئے کہ آج کچھ نہ کچھ ہم ان سب کو جانتے ہیں۔ بعد کی پیڑھی میں شاہد احمد دہلوی، اخلاق احمد دہلوی، اشرف صبوحی ایسے بزرگوں نے اپنے اسلاف کی یادوں کو سینے سے لگایا، ان کے اسلوب کی یادیں تازہ کیں بلکہ اگر ہم کہیں کہ شاہد صاحب دہلوی اور اشرف صبوحی صاحب کی نثر اپنے پیش روؤں سے بھی شگفتہ تھی تو مبالغہ نہ ہو گا. آج اسلم فرّخی اور انتظار حسین صاحب، خدا ان کی عمر دراز کرے اس ورثے کے امین ہیں باقی رہے نام اللہ کا!!!
دلّی کے بارے میں جتنا کام آج تک ہوا، اسے مرتب کیا جائے تو ایک لمبی فہرست بنے گی، بہرحال، چند اہم نام درج ذیل ہیں؛
داستان غدر ۔ سید ظہیر الدین دہلوی
آثار الصنادید ۔ سید احمد خان
رسوم دہلی ۔ سید احمد دہلوی
بزم آخر ۔ منشی فیض الدین
یہ دلّی ہے ۔ سید یوسف بخاری دہلوی
یادگار دہلی ۔ سید احمد دہلوی
فریاد دہلی ۔ نظامی بدایونی (جنگ آزادی 1857 ء کے بعد کہی گئی شاعری)
دہلی ۔ محمود علی خاں جامعی
میرے زمانے کی دلّی ۔ ملا واحدی
دلّی جو ایک شہر تھا ۔ ملا واحدی
دلّی کی بپتا ۔ شاہد احمد دہلوی
دلّی کی آوازیں ۔ خواجہ محمد شفیع دہلوی
دلّی کا سنبھالا ۔ خواجہ محمد شفیع دہلوی
لال قلعہ کی ایک جھلک ۔ خواجہ سید ناصر نذیر فراق دہلوی
عالم میں انتخاب، دلّی ۔ مہیشور دیال
سیر دہلی ۔ خواجہ حسن نظامی
واقعات دارلحکومت دہلی ۔ بشیر الدین احمد دہلوی
سوانح دہلی ۔ شہزاد مرزا احمد اختر گورگانی
قلعہ معلی کی جھلکیاں ۔ عرش تیموری
دہلی کا آخری دیدار ۔ سید وزیر حسن دہلوی
چراغ دہلی ۔ مرزا حیرت دہلوی
دلّی کی آخری بہار ۔ علامہ رشید الخیری
دلّی کی آثار قدیمہ ۔ ڈاکٹر خلیق انجم
سرگزشت دہلی ۔ خواجہ محمّد شجاع
واقعات اظفری ۔ مرزا ظہیر الدین اظفری
مرحوم دلّی کی ایک جھلک ۔ شمیم احمد
دہلی اور اس کے اطراف ۔ مولانا حکیم سید عبدالحئی
جلوۂ آفاق ۔ سید آفاق حسین آفاق دہلوی (شاعری 228 تاریخ دہلی)
مرقع دہلی ۔ نواب درگاہ قلی خان
دلّی تھا جس کا نام ۔ انتظار حسین
)اس فہرست میں خاکوں یا دیگر موضوعات کی کتب نہیں ہیں(
درج بالا فہرست میں ایک کتاب "دلّی کا سنبھالا از خواجہ محمد شفیع دہلوی" ہے، آپ بتایئے کتنوں نے اسے آج تک پڑھا ہے یا نام سنا ہے، یہ المیہ ہے کہ اس فہرست میں چند اور بالعموم تمام دہلوی نثر نگاروں کی کتب آج ناپید ہیں۔بہت اہم ادارے قابلِ ستائش کام اس ضمن میں سر انجام دے رہے ہیں، لیکن اس کتاب سے انہوں نے بھی نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر صرفِ نظر کیا۔ اس کتاب کے پیش لفظ کے لیے خواجہ صاحب کے بارے کھوج شرو ع کی تو برادران، بقول داغ مرحوم،
رنج بھی ایسے اْٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے۔۔۔
آپ کو کہیں ان کے مفصل حالات نہیں ملتے اور ستم بالائے ستم اتنی کتب کے مصنف اور لائبریریوں میں بھی ڈھونڈیئے تو کوئی ایک کتاب نہیں ملتی۔ بمشکل تمام خواجہ صاحب کی چند مزید کتب مہیا کیں جن میں سے ایک کے لیے محترم ہارون عثمانی صاحب کے ممنون ہیں کہ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لائبریری سے تلاش کر کے پیش لفظ نقل کرنے دیا اور ایک غیر ملکی لائبریری سے درخواست کر کے چند عکسی نقول منگوائیں تو کچھ بات بنی ۔
خواجہ شفیع دہلوی کا ایک مختصر تعارف جو ان کے شایان شان نہیں، لیکن دستیاب کتب سے جو کچھ مل سکا، حاضرِخدمت ہے؛
ایثار، خلوص، محبت، مروت اور اخلاق کے پیکر، خواجہ محمد شفیع دہلوی 1909ء میں دلّی میں پیدا ہوئے، ان کے والد خواجہ عبدالمجید دہلوی، ایک معروف ادبی شخصیت، سینٹ کالج دلّی میں شعبہ فارسی کے استاد، خطاب یافتہ نواب، اور صاحبِ تصنیف تھے، ’رفتار زمانہ ‘ نامی ایک کتاب میں دلّی کی قدیم ٹکسالی زبان استعمال کرتے ہوے تہذیب جدید کا بہت خوب نقشہ کھینچا ہے، یہ مضامین ریڈیائی تقریر کی صورت آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بھی پیش ہوئے۔
خواجہ شفیع دراز قد، دوہری جسامت، کشادہ پیشانی اور با رعب چہرے کے مالک تھے، پہلوانی اور شہسواری کاذوق رکھتے تھے۔ اردو اور انگریزی پر یکساں عبور تھا۔ مشاعروں کی نظامت میں یدِِ ِطولیٰ حاصل تھا۔ اردو مجلس کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کے روح و رواں وہ خود تھے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام بزمِ نثر و مشاعرہ منقعد ہوتی تھی جس میں اس دور کے مشہور نثر نگار اور شعرا آتے تھے۔ قطع نظر عمر کے، اس محفل میں پیر و جوان سب شرکت کر سکتے تھے، گویا صلائے عام تھی ۔ خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی بھی کبھی کبھی محفل کو رونق بخشتے تھے۔ نثرمیں ٹکسالی زبان اور متقدمین کی شاعری پسند کرتے تھے۔ مشاعروں میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، ظریف دہلوی، شیدا گجراتی، گلزار دہلوی، جمیل الدین عالی صاحب اور دیگر ہم عصر شعرا پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ آزاد شاعری، ترقی پسند ادب اور ادیبوں کے بارے میں تحفظات رکھتے تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے۔
خواجہ محمد شفیع صاحب دہلوی کی مشہور مگر کمیاب تصانیف درج ذیل ہیں؛
دلّی کا سنبھالا، ہم اور وہ، دلّی کی آوازیں، میونسپل الیکشن، مغلوں کا مد و جزر، روپ متی، سٹرائیک، گناہ، چند افسانے، میلاد شریف، ناکام، داغ ہائے قمر، آتش خاموش، عشق جہانگیر، سنگ سنگاتی، گاما اور شرح خواجہ میر درد ۔
اس عہد کے دیگر نثر نگاروں کی طرح ان کی تحریر میں بھی تقسیم سے پہلے اور بعد کے زمانے صاف نظر آتے ہیں، اور جیسا کہ عمومی طور پر ہجرت کر کے آنے والے نثر نگار پاکستان میں مایوس اور دل گرفتہ پائے گئے، تو یہی کچھ ان کے ساتھ بھی ہوا۔ ترقی پسند ادب اور سوشل ازم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو دیکھتے ہوے ایک ناول "زیب" لکھا جو ماہنامہ "تذکرہ" میں 1954 ء سے 1956ء تک بلِاقساط شایع ہوا لیکن چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ رسالہ بند ہو گیا اور باوجود تنگ دستی کے انھوں نے باِلآخر 1960ء میں مقصدیت کے تحت وہ ناول چھپوایا۔تقسیم سے پہلے کی تصانیف میں ایک طوطیِ شکر مقال چہکتا ہوا نظر آتا ہے لیکن تقسیم کے بعد وہ رنگ غالب نہیں رہتا۔
تقسیم سے پہلے شایع شدہ ان کی ایک کتاب سٹرائیک سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے؛
" ایک صاحب نے میری جانب اشارہ کر کے فرمایا، یہ بیچاریاں ازدواجی زندگی سے محروم ہیں، ایک تیر سا لگا، پر میں کچھ نہ بولی، وہ خموش ہونے والے تھے نہیں ، کہنے لگے، اکبر الہ ٰآبادی خوب کہہ گیا ہے، ایک نے پوچھا کیا، بولے، قصہ طلب شعر ہے، وہ ہوا یہ کہ بی گوہر کلکتہ والی پشاور جا رہی تھیں، جب الہ آباد کے سٹیشن پر پہنچیں تو اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ سامان اتروا لو اور خود پلیٹ فارم پر آ کھڑی ہوئیں۔ وہ غریب پریشان کہ آخر ماجرا کیا ہے، لیکن تریا ہٹ اور پھر تریا بھی ۔۔۔۔۔۔۔بہرکیف حکمِ حاکم مرگِ مفاجات، وہ اس خیرہ سر کی خود سری سے واقف تھا، تعمیل حکم کی۔ یہ بیگم ٹم ٹم میں سوار ہو، اکبر الہ آبادی کے گھر جا دھمکیں۔ سیکرٹری نے اطلاع کی کہ گوہر کلکتے والی ملنے آئی ہیں، بڑے میاں اپنے بڑھاپے پر نادم، بیٹھک میں تشریف لائے، یہ تڑاخ پراخ مقراض زبان بولی، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے آج عمر بھر کی آرزو بر آئی۔ میں تو پشاور جا رہی تھی پر الہ آباد کا نام سنتے ہی دل نہ مانا کہ شرف قدمبوسی حاصل کیے بغیر چلی جاؤں، آپ جانیں عورت دل کی لونڈی ہوتی ہے، خدا کا شکر ہے آج جناب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یہ دن میری زندگی میں یادگار رہے گا۔ بڑے میاں نے بھی مناسب جواب دئیے۔ چلتے ہوئے کہنے لگی، ایک اور آرزو ہے، اگر خاطرِعاطر پر گراں نہ گزرے۔ پہلے تو حضرت گھبرائے، پھر ڈرتے ڈرتے دریافت کی، اس نے کہا اگر اپنی قلم سے کچھ رقم فرما دیں تو حرزِ جاں بنا کر رکھوں۔
جناب نے یہ شعر لکھ لفافہ میں بند کر، حوالے کر دیا۔
کون خوش بخت زمانہ میں ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
کان یہ سن رہے تھے، آنکھوں کے سامنے زندگی اپنے مناظر پیش کر رہی تھی اور میں اس تماشے میں غرق تھی۔"
اب آئیے تقسیم کے بعد کے ایک ناول "زیب" کا ایک اقتباس پیش نظر ہے ؛
یہ سرائے فانی قصرِ عیش نہیں، جس بے وقوف، کم عقل، خرد دشمن نے اسے پھولوں کا بستر جانا اس کی آغوش میں اس نے کانٹے چبھوئے، اس کی چادر تلے خنجر ہے تکیے میں بچھو۔ یہ ناگن ہے نہایت خوش رنگ، جو بھی اس سے کھیلا، مارا گیا۔
مکن بہ چشم ارادت نگاہ در دنیا
کہ پشت مار بہ نقش است و زہر او قتال ( پند و موعظۃ ۔سعدی)
یہ اژدہامِ عام یہ ہجوم خلق خدا کیوں ہے۔ ہر ایک کے چہرے پر مردنی ہے، ہر ایک کی آنکھوں میں بھوت کھیل رہے ہیں، ہڈیوں کے پنجر میں سانس کا پنچھی بول رہا ہے، ان کی بھنویں خنجر ہیں تیور کٹار ______________ کہیں بھوک انہیں مردم خوار نہ بنا دے، کہیں مصائب انہیں آدمیت شکار نہ کر دیں۔ ان کے ہاتھوں پر جلی قلم سے مصیبت لکھی ہے۔ ان کے ابرو خوں آشام ہیں۔ چھریاں تان رہے ہیں، ان کی سوکھی ہڈیوں پر فاقوں نے بان دھروے ہیں، ان کے کلیجے چھلنی ہیں، ان کے دل خوں چکاں____________ یہ کون لوگ ہیں اور یہ کیا دفتر ہے، بندہ پرور، یہ دفترِآباد کاری ہے !!!!
تقسیم کے بعد جب خواجہ صاحب پاکستان آئے تو یہاں کے حالات سے بہت مایوس ہوئے، اپنی کتاب زیب کے دیباچے میں رقم کرتے ہیں کہ جس سرزمین کے لیے اپنا سب کچھ لٹا کر آئے، جب اس کا ہی ایسا حال دیکھا کہ ہر طرف افرا تفری اور نفسا نفسی کا عالم ہے تو دل گرفتہ ہو کر قلم تھاما اور حکایات خونچکاں لکھنی شروع کر دیں۔ کہتے ہیں " ربِ قدیر اس سر تا پا عصیاں سے اگر دریافت کرے گا کہ جب اہل دیں کی سلطنت تباہ کی جا رہی تھی تو کم بخت تو کیا کر رہا تھا، اس وقت یہ گناہ گار عصیاں شعار عرض کر سکے گا کہ میرے مولا تو نے قلم دی تھی تلوار نہیں، سو یہ کام میں لائی گئی".
اس سارے قضیے کو بیان کرنے کا مقصدِ واحد یہ تھا کہ ہم خواجہ صاحب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں، پاکستان آنے کے بعد بھی گاہے بگاہے انھوں نے نظم و نثر کی محافل منعقد کیں1992ء میں بعمر 83 سال ان کا لاہور میں انتقال ہوا۔
زیر نظر کتاب، دلّی کا سنبھالا، دلّی کی تاریخ اور اہم کرداروں کا احاطہ کرتی ہے. ذوق کا یہ شعر غالباً اس نام کے پس منظر و غایت کو صحیح طور سے بیان کرنے کے لیے کافی ہے؛
بیمارِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا
لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تواچھا
اس کتاب کے چند مضامین آل انڈیا ریڈیو دہلی کے لیے لکھے گئے اور باقی جستہ جستہ خواجہ صاحب نے قلم بند کیے۔ مرزا چپاتی، مرزا کالے، مرزا چڑیا، مرزا قادر بخش بنوٹئے، استاد محمد بیگ، مرزا عاشور بیگ، میر ماہی، میر پنجہ کش، مرزا فجو بیگ شہسوار، میر کاظم علی شاہ داستان گو اور تفضل حسین خاں مصور سمیت ایسے کئی کردار ہیں جن میں سے چند کا شاہد احمد دہلوی صاحب اور اشرف صبوحی صاحب نے ہمیں تفصیلاً تعارف کروایا لیکن بہت دلچسپ نقوش خواجہ صاحب کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ بس کتاب کی اختتامی سطور کے ساتھ اس تحریر کو بھی ختم کرتے ہیں ؛
"دلّی ماتا نے ایک مصاحب کی طرف دیکھا اور کہا کل کی صورتیں نظر نہیں آتیں، وہ لوگ کہاں گئے، جواب ملا، تہِ خاک. یہ سن جوگن جی اٹھ کھڑی ہوئیں، سب نے تعظیم دی، صاحب خانہ دروازہ تک چھوڑنے آئے۔
رات کے دو بجے ہیں، ہر سمت سکوت مرگ طاری ہے، چشمِ فلک سے شہابِ ثاقب آنسو بن بن کر ٹپک رہے ہیں۔ دلّی ماتا اپنی کٹی میں جا پڑیں، ساتھیوں نے بھی اپنے اپنے گھر راہ لی۔
رہے نام سائیں کا۔"
پس نوشت؛ زیرِنظرنسخہ ’جید برقی پریس‘دہلی سے ’مکتبہ جامعہ دہلی‘نے اکتوبر ۱۹۳۸ ء میں شائع کیا جو کہ طبعِ دوم تھا، آخری اشاعت حال ہی میں سامنے آئی ہے۔
اس مضمون کی فیس بک پر اشاعت کے بعد ہمارا رابطہ محترم حسین مجروح صاحب کے توسط سے خواجہ صاحب کی صاحبزادی سے ہوا ، سیر حاصل تفصیلات بہم پہنچیں، اگلے مضمون میں مُفصّل بیان خواجہ صاحب بارے ملاحظہ کیجئے گا۔
اقتباس ۔۱۔اشعار، شاہ عبد العزیز دہلوی، ۲۔ واقعاتِ دارلحکومت دہلی،بشیر الدین احمد دہلوی، ۳۔ دہلی ۶ کیا ہے، فیروز دہلوی)۔
ہندوستان میں تہذیبی شہر اور بھی ہیں۔ لکھنؤ، حیدرآباد، بھوپال وغیرہ، مگر سبھی کسی نہ کسی طرح دلی کی تہذیب سے متاثر رہے ہیں، اور یہاں کے ہنر مندوں نے ہی وہاں بھی علوم و فنون کی داغ بیل ڈالی۔
دلّی ۔ وہ دیار کہ جہاں کا ہر نثر نگار صاحب اسلوب، با محاورہ رواں دواں نثر لکھنے والا تھا، وہ نگر کہ جس کی آبادی سات بربادیوں کی مرہون منت ہے، جہاں ہر بار لٹنے کے بعد کچھ ماتم دار ، کچھ غمخوار آئے، نظم و نثر میں کیا کیا شاہکار نہ تخلیق ہوئے، لیکن یہ سب وہ تھے، جو وہاں کے تھے۔ از کجا آید ایں آواز دوست، ہم تو واں کے نکالے ہوئے بھی نہیں پھر کس برتے پر بات کریں، تو صاحبو، جان لو، دلّی ایک شہر، ایک نگر، ایک دیار، ایک علاقہ نہیں، ایک احساس ہے، ایک کیفیت ہے جو ہر اس ذی نفس پر طاری ہو سکتی ہے جو اپنے شاندار ماضی پر فخر کرتا ہے اور اس سے کسی صورت ناتا نہیں توڑنا چاہتا، بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ بھائی جس کا ایسا شاندار ماضی ہو، جس کی تہذیب ایسی ہو کہ بزرگ بچوں کو کھانے کے آداب میں یہ تک بتلائیں کہ اگر کسی گھر موت کا کھانا کھانا تو بیٹے، بس دو چار نوالے سے زیادہ مت لینا، اور دستر خوان بڑھنے تک بچوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ایک طویل اقتباس فیروز دہلوی صاحب کا، جو کہ ضروری ہے، ملاحظہ کیجئے، سلسلہ کلام اس اقتباس کے بعد بحال کرتے ہیں،
"کسی کا بڑا لقمہ دیکھا اور ٹوکا ’’بیٹا چھوٹا نوالہ بناؤ، گال پھولا ہوا نظر نہ آئے، چباتے وقت منھ بند رہے، چپڑ چپڑ کی آواز نہ ہو، سالن/ شوربے میں ناخن نہ ڈوبیں، غوری یا طشتری میں ایک طرف سے کھانا، ہاتھ نہ بھریں، جلدی جلدی نہ کھاؤ، آخر تک رکابی میں رونق رہے، بوٹی یا سبزی کا ایک حصہ آخری لقمے میں لینا‘‘۔ اسی طرح پانی پیتے وقت کہا جاتا ’’لمبا گھونٹ نہ لو، چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں تین مرتبہ پانی پیو‘‘۔ "دسترخوان پر اگر کباب ہوتے اور کوئی بچہ طشتری سے کباب اٹھاکر روٹی پر رکھ کر کھانے کی کوشش کرتا تو اسے معیوب سمجھتے۔ (بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے دلی کے بعض گورکن اپنے مْردوں کو دفنانے کے بعد جو حاضری کا کھانا کھلاتے، وہ مٹی کی رکابی میں روٹی کے دو ٹکڑے کرکے ان پر گولے کے کباب رکھتے، اس لیے روٹی پر کباب رکھ کر کھانا برا سمجھا جاتا)۔ضمناً یہاں گورکن اور کباب والی بات آگئی۔ ہم دسترخوان کی تربیت کا ذکر کر رہے تھے کہ بڑے بچوں کو سکھاتے تھے کہ کھاتے وقت دوسروں کے کھانے پر نظر نہ ڈالو، اپنے آگے جو رکھا ہوا ہے اسے دیکھو۔ کسی دوسرے دسترخوان پر کھانا ہو تو جو میزبان پیش کرے، اسے خوشی کے ساتھ کھاؤ۔ مرچ تیز، نمک پھیکا ہو تو اسے ظاہر نہ کرو۔ کسی کھانے میں عیب نکالنا بری بات ہے۔ غمی کے کھانے میں روٹی بوٹی کی فرمائش نہ کرنا۔ چند لقمے کھانا۔ اگر تمہاری رکابی میں نلی آجائے اور دسترخوان پر مغزکش نہ ہو تو اسے رکابی یا روٹی پر نہ جھاڑنا، نہ منھ سے چوسنا۔ اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تم نے کبھی کچھ کھایا پیا نہیں"
جی، تو عرض یہ تھی کہ جہاں دستر خوان چننے سے بڑھنے تک بچوں کو ایک ایک بات، ادب آداب سمجھے جائیں، جہاں کی تہذیب اتنی ترقی یافتہ ہو کہ اس پر جتنا فخر کریں کم ہو، وہاں اگر نئی تانتی برگر کھائے اور کولا مشروبات پئے اور نہ اپنا ماضی جانے نہ ہی جاننا چاہے تو بس اقبال کا ایک شعر یاد آتا ہے؛
صاحب قرآن و بے ذوق طلب،
العجب، ثم العجب، ثم العجب !!! !!!
(یہاں سخن فہم حضرات صاحب قرآن کی جگہ صاحِب58 قِرَان58 پڑھیں اور لطف اندوز ہوں(
تو اس کیفیت کے زیر اثر، ایک طویل عرصے سے دلّی کے متعلق جو کچھ جہاں سے بھی مل سکا پڑھا، پھر دہلوی نثر نگاروں کی محفل میں زانوئے تلمذ تہ کیا، اور کیا کیا عالم میں انتخاب، دُرِ نایاب، گوہرِ عالم تاب وہاں نہ پایا، اگر خدا لگتی کہیے تو صاحبو لکھنے والے وہی تھے جو لکھ گئے ہم تو گھس کھدے ہیں جو ان کی خاک کو بھی نہ چھو پائیں!! ایسے ایسے شہ زور قلم کار، ایسا بیانیہ، کہ جس دم چاہیں لال قلعہ کی ایک جھلک دکھلانے میں بیسیوں صفحے لکھ جائیں، زیورات کا ذکر آئے تو صفحات ختم ہو جائیں بیان جاری ہو، کھانوں کا ذکر آئے تو قاموسُ الطعام بن جائیں، دلی کے رکاب داروں کی ہنرمندی کا بیان ختم نہ ہو، پھول والوں کی سیر کا ذکر کیجئے تو ہر نثر نگار اپنے ہی رنگ میں ایک منظر نگاہ کے سامنے رکھ دے، کبوتر بازی، کنکوا بازی، بنوٹ، شمشیر زنی، پہلوانی، حتیٰ کہ ٹھگوں کے واقعات تک ایسے مفصل ملیں کہ جن کی بنیاد پر "مُصطلحاتِ ٹھگی" جیسا شاہکار وجود میں آئے، الغرض شاہجہاں آباد میں 1639 ء سے آج تک کبھی بھی لکھنے اور کہنے کا کال نہ پڑا۔ داستان گو ایسے کہ ایک بارات کی روانگی کے منظر میں ساری رات بِتا دیں اور صبح تک بارات نہ چلی ہو، انصاف کیجئے گا، کسی تہذیب کے ایسے منظر نگار کہیں آپ کو ملے جو یہاں با افراط موجود تھے؟؟؟ تو صاحبان ذی علم!!! قدر نہ شناسی کا شکار ہوئے اور ہیں آج تک، وہ سب کے سب!!! آپ کو ان کے شہ پارے تو شاید مل جائیں، ان کے حالات زندگی بہت مشکل ہے کہ آپ جان سکیں۔بات کیجئے ظہیر دہلوی کی، میر باقر علی کی، ناصر نذیر فراق دہلوی کی، آغا حیدر حسن دہلوی کی، خواجہ محمد شفیع دہلوی کی، ظفر تاباں کی، منشی فیض الدین کی، سید احمد دہلوی، بشیر الدین احمد، مُلا واحدی، الغرض کیا کیا نام گنوائیں، وہ تو شکرِ خدا کہ شاہد احمد صاحب دہلوی ساقی سے وہ کام کر گئے کہ آج کچھ نہ کچھ ہم ان سب کو جانتے ہیں۔ بعد کی پیڑھی میں شاہد احمد دہلوی، اخلاق احمد دہلوی، اشرف صبوحی ایسے بزرگوں نے اپنے اسلاف کی یادوں کو سینے سے لگایا، ان کے اسلوب کی یادیں تازہ کیں بلکہ اگر ہم کہیں کہ شاہد صاحب دہلوی اور اشرف صبوحی صاحب کی نثر اپنے پیش روؤں سے بھی شگفتہ تھی تو مبالغہ نہ ہو گا. آج اسلم فرّخی اور انتظار حسین صاحب، خدا ان کی عمر دراز کرے اس ورثے کے امین ہیں باقی رہے نام اللہ کا!!!
دلّی کے بارے میں جتنا کام آج تک ہوا، اسے مرتب کیا جائے تو ایک لمبی فہرست بنے گی، بہرحال، چند اہم نام درج ذیل ہیں؛
داستان غدر ۔ سید ظہیر الدین دہلوی
آثار الصنادید ۔ سید احمد خان
رسوم دہلی ۔ سید احمد دہلوی
بزم آخر ۔ منشی فیض الدین
یہ دلّی ہے ۔ سید یوسف بخاری دہلوی
یادگار دہلی ۔ سید احمد دہلوی
فریاد دہلی ۔ نظامی بدایونی (جنگ آزادی 1857 ء کے بعد کہی گئی شاعری)
دہلی ۔ محمود علی خاں جامعی
میرے زمانے کی دلّی ۔ ملا واحدی
دلّی جو ایک شہر تھا ۔ ملا واحدی
دلّی کی بپتا ۔ شاہد احمد دہلوی
دلّی کی آوازیں ۔ خواجہ محمد شفیع دہلوی
دلّی کا سنبھالا ۔ خواجہ محمد شفیع دہلوی
لال قلعہ کی ایک جھلک ۔ خواجہ سید ناصر نذیر فراق دہلوی
عالم میں انتخاب، دلّی ۔ مہیشور دیال
سیر دہلی ۔ خواجہ حسن نظامی
واقعات دارلحکومت دہلی ۔ بشیر الدین احمد دہلوی
سوانح دہلی ۔ شہزاد مرزا احمد اختر گورگانی
قلعہ معلی کی جھلکیاں ۔ عرش تیموری
دہلی کا آخری دیدار ۔ سید وزیر حسن دہلوی
چراغ دہلی ۔ مرزا حیرت دہلوی
دلّی کی آخری بہار ۔ علامہ رشید الخیری
دلّی کی آثار قدیمہ ۔ ڈاکٹر خلیق انجم
سرگزشت دہلی ۔ خواجہ محمّد شجاع
واقعات اظفری ۔ مرزا ظہیر الدین اظفری
مرحوم دلّی کی ایک جھلک ۔ شمیم احمد
دہلی اور اس کے اطراف ۔ مولانا حکیم سید عبدالحئی
جلوۂ آفاق ۔ سید آفاق حسین آفاق دہلوی (شاعری 228 تاریخ دہلی)
مرقع دہلی ۔ نواب درگاہ قلی خان
دلّی تھا جس کا نام ۔ انتظار حسین
)اس فہرست میں خاکوں یا دیگر موضوعات کی کتب نہیں ہیں(
درج بالا فہرست میں ایک کتاب "دلّی کا سنبھالا از خواجہ محمد شفیع دہلوی" ہے، آپ بتایئے کتنوں نے اسے آج تک پڑھا ہے یا نام سنا ہے، یہ المیہ ہے کہ اس فہرست میں چند اور بالعموم تمام دہلوی نثر نگاروں کی کتب آج ناپید ہیں۔بہت اہم ادارے قابلِ ستائش کام اس ضمن میں سر انجام دے رہے ہیں، لیکن اس کتاب سے انہوں نے بھی نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر صرفِ نظر کیا۔ اس کتاب کے پیش لفظ کے لیے خواجہ صاحب کے بارے کھوج شرو ع کی تو برادران، بقول داغ مرحوم،
رنج بھی ایسے اْٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے۔۔۔
آپ کو کہیں ان کے مفصل حالات نہیں ملتے اور ستم بالائے ستم اتنی کتب کے مصنف اور لائبریریوں میں بھی ڈھونڈیئے تو کوئی ایک کتاب نہیں ملتی۔ بمشکل تمام خواجہ صاحب کی چند مزید کتب مہیا کیں جن میں سے ایک کے لیے محترم ہارون عثمانی صاحب کے ممنون ہیں کہ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لائبریری سے تلاش کر کے پیش لفظ نقل کرنے دیا اور ایک غیر ملکی لائبریری سے درخواست کر کے چند عکسی نقول منگوائیں تو کچھ بات بنی ۔
خواجہ شفیع دہلوی کا ایک مختصر تعارف جو ان کے شایان شان نہیں، لیکن دستیاب کتب سے جو کچھ مل سکا، حاضرِخدمت ہے؛
ایثار، خلوص، محبت، مروت اور اخلاق کے پیکر، خواجہ محمد شفیع دہلوی 1909ء میں دلّی میں پیدا ہوئے، ان کے والد خواجہ عبدالمجید دہلوی، ایک معروف ادبی شخصیت، سینٹ کالج دلّی میں شعبہ فارسی کے استاد، خطاب یافتہ نواب، اور صاحبِ تصنیف تھے، ’رفتار زمانہ ‘ نامی ایک کتاب میں دلّی کی قدیم ٹکسالی زبان استعمال کرتے ہوے تہذیب جدید کا بہت خوب نقشہ کھینچا ہے، یہ مضامین ریڈیائی تقریر کی صورت آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بھی پیش ہوئے۔
خواجہ شفیع دراز قد، دوہری جسامت، کشادہ پیشانی اور با رعب چہرے کے مالک تھے، پہلوانی اور شہسواری کاذوق رکھتے تھے۔ اردو اور انگریزی پر یکساں عبور تھا۔ مشاعروں کی نظامت میں یدِِ ِطولیٰ حاصل تھا۔ اردو مجلس کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کے روح و رواں وہ خود تھے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام بزمِ نثر و مشاعرہ منقعد ہوتی تھی جس میں اس دور کے مشہور نثر نگار اور شعرا آتے تھے۔ قطع نظر عمر کے، اس محفل میں پیر و جوان سب شرکت کر سکتے تھے، گویا صلائے عام تھی ۔ خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی بھی کبھی کبھی محفل کو رونق بخشتے تھے۔ نثرمیں ٹکسالی زبان اور متقدمین کی شاعری پسند کرتے تھے۔ مشاعروں میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، ظریف دہلوی، شیدا گجراتی، گلزار دہلوی، جمیل الدین عالی صاحب اور دیگر ہم عصر شعرا پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ آزاد شاعری، ترقی پسند ادب اور ادیبوں کے بارے میں تحفظات رکھتے تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے۔
خواجہ محمد شفیع صاحب دہلوی کی مشہور مگر کمیاب تصانیف درج ذیل ہیں؛
دلّی کا سنبھالا، ہم اور وہ، دلّی کی آوازیں، میونسپل الیکشن، مغلوں کا مد و جزر، روپ متی، سٹرائیک، گناہ، چند افسانے، میلاد شریف، ناکام، داغ ہائے قمر، آتش خاموش، عشق جہانگیر، سنگ سنگاتی، گاما اور شرح خواجہ میر درد ۔
اس عہد کے دیگر نثر نگاروں کی طرح ان کی تحریر میں بھی تقسیم سے پہلے اور بعد کے زمانے صاف نظر آتے ہیں، اور جیسا کہ عمومی طور پر ہجرت کر کے آنے والے نثر نگار پاکستان میں مایوس اور دل گرفتہ پائے گئے، تو یہی کچھ ان کے ساتھ بھی ہوا۔ ترقی پسند ادب اور سوشل ازم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو دیکھتے ہوے ایک ناول "زیب" لکھا جو ماہنامہ "تذکرہ" میں 1954 ء سے 1956ء تک بلِاقساط شایع ہوا لیکن چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ رسالہ بند ہو گیا اور باوجود تنگ دستی کے انھوں نے باِلآخر 1960ء میں مقصدیت کے تحت وہ ناول چھپوایا۔تقسیم سے پہلے کی تصانیف میں ایک طوطیِ شکر مقال چہکتا ہوا نظر آتا ہے لیکن تقسیم کے بعد وہ رنگ غالب نہیں رہتا۔
تقسیم سے پہلے شایع شدہ ان کی ایک کتاب سٹرائیک سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے؛
" ایک صاحب نے میری جانب اشارہ کر کے فرمایا، یہ بیچاریاں ازدواجی زندگی سے محروم ہیں، ایک تیر سا لگا، پر میں کچھ نہ بولی، وہ خموش ہونے والے تھے نہیں ، کہنے لگے، اکبر الہ ٰآبادی خوب کہہ گیا ہے، ایک نے پوچھا کیا، بولے، قصہ طلب شعر ہے، وہ ہوا یہ کہ بی گوہر کلکتہ والی پشاور جا رہی تھیں، جب الہ آباد کے سٹیشن پر پہنچیں تو اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ سامان اتروا لو اور خود پلیٹ فارم پر آ کھڑی ہوئیں۔ وہ غریب پریشان کہ آخر ماجرا کیا ہے، لیکن تریا ہٹ اور پھر تریا بھی ۔۔۔۔۔۔۔بہرکیف حکمِ حاکم مرگِ مفاجات، وہ اس خیرہ سر کی خود سری سے واقف تھا، تعمیل حکم کی۔ یہ بیگم ٹم ٹم میں سوار ہو، اکبر الہ آبادی کے گھر جا دھمکیں۔ سیکرٹری نے اطلاع کی کہ گوہر کلکتے والی ملنے آئی ہیں، بڑے میاں اپنے بڑھاپے پر نادم، بیٹھک میں تشریف لائے، یہ تڑاخ پراخ مقراض زبان بولی، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے آج عمر بھر کی آرزو بر آئی۔ میں تو پشاور جا رہی تھی پر الہ آباد کا نام سنتے ہی دل نہ مانا کہ شرف قدمبوسی حاصل کیے بغیر چلی جاؤں، آپ جانیں عورت دل کی لونڈی ہوتی ہے، خدا کا شکر ہے آج جناب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یہ دن میری زندگی میں یادگار رہے گا۔ بڑے میاں نے بھی مناسب جواب دئیے۔ چلتے ہوئے کہنے لگی، ایک اور آرزو ہے، اگر خاطرِعاطر پر گراں نہ گزرے۔ پہلے تو حضرت گھبرائے، پھر ڈرتے ڈرتے دریافت کی، اس نے کہا اگر اپنی قلم سے کچھ رقم فرما دیں تو حرزِ جاں بنا کر رکھوں۔
جناب نے یہ شعر لکھ لفافہ میں بند کر، حوالے کر دیا۔
کون خوش بخت زمانہ میں ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
کان یہ سن رہے تھے، آنکھوں کے سامنے زندگی اپنے مناظر پیش کر رہی تھی اور میں اس تماشے میں غرق تھی۔"
اب آئیے تقسیم کے بعد کے ایک ناول "زیب" کا ایک اقتباس پیش نظر ہے ؛
یہ سرائے فانی قصرِ عیش نہیں، جس بے وقوف، کم عقل، خرد دشمن نے اسے پھولوں کا بستر جانا اس کی آغوش میں اس نے کانٹے چبھوئے، اس کی چادر تلے خنجر ہے تکیے میں بچھو۔ یہ ناگن ہے نہایت خوش رنگ، جو بھی اس سے کھیلا، مارا گیا۔
مکن بہ چشم ارادت نگاہ در دنیا
کہ پشت مار بہ نقش است و زہر او قتال ( پند و موعظۃ ۔سعدی)
یہ اژدہامِ عام یہ ہجوم خلق خدا کیوں ہے۔ ہر ایک کے چہرے پر مردنی ہے، ہر ایک کی آنکھوں میں بھوت کھیل رہے ہیں، ہڈیوں کے پنجر میں سانس کا پنچھی بول رہا ہے، ان کی بھنویں خنجر ہیں تیور کٹار ______________ کہیں بھوک انہیں مردم خوار نہ بنا دے، کہیں مصائب انہیں آدمیت شکار نہ کر دیں۔ ان کے ہاتھوں پر جلی قلم سے مصیبت لکھی ہے۔ ان کے ابرو خوں آشام ہیں۔ چھریاں تان رہے ہیں، ان کی سوکھی ہڈیوں پر فاقوں نے بان دھروے ہیں، ان کے کلیجے چھلنی ہیں، ان کے دل خوں چکاں____________ یہ کون لوگ ہیں اور یہ کیا دفتر ہے، بندہ پرور، یہ دفترِآباد کاری ہے !!!!
تقسیم کے بعد جب خواجہ صاحب پاکستان آئے تو یہاں کے حالات سے بہت مایوس ہوئے، اپنی کتاب زیب کے دیباچے میں رقم کرتے ہیں کہ جس سرزمین کے لیے اپنا سب کچھ لٹا کر آئے، جب اس کا ہی ایسا حال دیکھا کہ ہر طرف افرا تفری اور نفسا نفسی کا عالم ہے تو دل گرفتہ ہو کر قلم تھاما اور حکایات خونچکاں لکھنی شروع کر دیں۔ کہتے ہیں " ربِ قدیر اس سر تا پا عصیاں سے اگر دریافت کرے گا کہ جب اہل دیں کی سلطنت تباہ کی جا رہی تھی تو کم بخت تو کیا کر رہا تھا، اس وقت یہ گناہ گار عصیاں شعار عرض کر سکے گا کہ میرے مولا تو نے قلم دی تھی تلوار نہیں، سو یہ کام میں لائی گئی".
اس سارے قضیے کو بیان کرنے کا مقصدِ واحد یہ تھا کہ ہم خواجہ صاحب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں، پاکستان آنے کے بعد بھی گاہے بگاہے انھوں نے نظم و نثر کی محافل منعقد کیں1992ء میں بعمر 83 سال ان کا لاہور میں انتقال ہوا۔
زیر نظر کتاب، دلّی کا سنبھالا، دلّی کی تاریخ اور اہم کرداروں کا احاطہ کرتی ہے. ذوق کا یہ شعر غالباً اس نام کے پس منظر و غایت کو صحیح طور سے بیان کرنے کے لیے کافی ہے؛
بیمارِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا
لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تواچھا
اس کتاب کے چند مضامین آل انڈیا ریڈیو دہلی کے لیے لکھے گئے اور باقی جستہ جستہ خواجہ صاحب نے قلم بند کیے۔ مرزا چپاتی، مرزا کالے، مرزا چڑیا، مرزا قادر بخش بنوٹئے، استاد محمد بیگ، مرزا عاشور بیگ، میر ماہی، میر پنجہ کش، مرزا فجو بیگ شہسوار، میر کاظم علی شاہ داستان گو اور تفضل حسین خاں مصور سمیت ایسے کئی کردار ہیں جن میں سے چند کا شاہد احمد دہلوی صاحب اور اشرف صبوحی صاحب نے ہمیں تفصیلاً تعارف کروایا لیکن بہت دلچسپ نقوش خواجہ صاحب کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ بس کتاب کی اختتامی سطور کے ساتھ اس تحریر کو بھی ختم کرتے ہیں ؛
"دلّی ماتا نے ایک مصاحب کی طرف دیکھا اور کہا کل کی صورتیں نظر نہیں آتیں، وہ لوگ کہاں گئے، جواب ملا، تہِ خاک. یہ سن جوگن جی اٹھ کھڑی ہوئیں، سب نے تعظیم دی، صاحب خانہ دروازہ تک چھوڑنے آئے۔
رات کے دو بجے ہیں، ہر سمت سکوت مرگ طاری ہے، چشمِ فلک سے شہابِ ثاقب آنسو بن بن کر ٹپک رہے ہیں۔ دلّی ماتا اپنی کٹی میں جا پڑیں، ساتھیوں نے بھی اپنے اپنے گھر راہ لی۔
رہے نام سائیں کا۔"
پس نوشت؛ زیرِنظرنسخہ ’جید برقی پریس‘دہلی سے ’مکتبہ جامعہ دہلی‘نے اکتوبر ۱۹۳۸ ء میں شائع کیا جو کہ طبعِ دوم تھا، آخری اشاعت حال ہی میں سامنے آئی ہے۔
اس مضمون کی فیس بک پر اشاعت کے بعد ہمارا رابطہ محترم حسین مجروح صاحب کے توسط سے خواجہ صاحب کی صاحبزادی سے ہوا ، سیر حاصل تفصیلات بہم پہنچیں، اگلے مضمون میں مُفصّل بیان خواجہ صاحب بارے ملاحظہ کیجئے گا۔
نثرِدھلی کا ایک اچھوتا مرقع ۔ بن باسی رستم
"حقیقت اردو کی زبان کی، بزرگوں کے منہ سے یوں سنی ہے کہ دلی شہر ہندوؤں کے نزدیک چوجُگی (چار جُگوں والی، بمطابق ہندو مت، ایک جُگ کئی ہزار سالہ ہوتا ہے ۔ راقم) ہے، انہیں کے راجا پرجا قدیم سے رہتے تھے اور اپنی بھاکھا بولتے تھے۔ ہزار برس سے مسلمانوں کا عمل ہوا۔ سلطان محمود غزنوی آیا، پھر غوری اور لودھی بادشاہ ہوئے۔ اس آمدورفت کے باعث کچھ زبانوں نے ہندو مسلمان کی آمیزش پائی۔ آخر امیر تیمور نے (جن کے گھرانے میں اب تلک نام نہاد سلطنت کا، چلا جاتا ہے) ہندوستان کو لیا۔ ان کے آنے اور رہنے سے لشکر کا بازار شہر میں داخل ہوا۔ اس واسطے شہر کا بازار اردو کہلایا۔ پھر ہمایوں بادشاہ پٹھانوں کے ہاتھ سے حیران ہو کر ولایت گئے۔ آخر وہاں سے آن کر پسماندوں پٹھانوں کی گوشمالی کی۔ کوئی مفسد باقی نہ رہا کہ فتنہ و فساد برپا کرے۔
جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے قوم، قدردانی اور فیض رسانی اس خاندانِ لاثانی کی سُن کر، حضور میں آکر جمع ہوئے۔ لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جُدی جُدی تھی۔ اکھٹے ہونے سے آپس میں لین دین، سودا سلف، سوال و جواب کرنے کی زبان اردو کی مقرر ہوئی۔ جب حضرت شاہ جہان، صاحب قِران نے قلعہء مبارک اور جامع مسجد اور شہر پناہ تعمیر کروایا اور تخت طاؤس میں جواہر جڑوایا اور دل بادل سا خیمہ، چوبوں پر ایستاد کر، طنابوں سے کھنچوایا اور نواب علی مردان خان نہر کو لے کر آیا، تب بادشاہ نے خوش ہو کر جشن فرمایا اور شہر کو اپنا دارالخلافت بنایا، تب سے شاہ جہاں آباد مشہور ہوا (اگرچہ دلی جُدی ہے، وہ پرانا شہر اور یہ نیا شہر کہلاتا ہے) اور وہاں کے بازار کو اردوئے معلٰی خطاب دیا۔
امیر تیمور کے عہد سے محمد شاہ کی بادشاہت، بلکہ احمد شاہ اور عالم گیر ثانی کے وقت تک، پیڑھی بہ پیڑھی، سلطنت یکساں چلی آئی، ندان، زبان اردو کی منجھتے منجھتے ایسی منجھی کہ کسو شہر کی بولی اس سے ٹکر نہیں کھاتی، لیکن قدردان منصف چاہے، جو تجویز کرے"۔
اقتباساتِ ھذا راقم حروف نے باعث برکت جانے اور مقدمہ باغ و بہار میر امن صاحب دلی والے سے مستعاراً آپ عزت مآب صاحبان کی خدمت پیش کیے۔
مرزا محمد اشرف صاحب گورگانی دہلوی جو مصنف اس تحریر (بن باسی رستم)کے ہیں، عمومی طور ایک شاعر کی حیثیت پہچانے جاتے ہیں، خمخانہء جاویدمیں ان کا تذکرہ یوں ملتا ہے؛
"(بزمی)مرزا محمد اشرف بی اے، خلف مرزا محمود اشرف گورگانی دہلوی،ابتدائے ملازمت میں آپ کو ریاست بھاولپور کے سرشتہء تعلیم سے تعلق رہا، آجکل خانپور میں ناظم اور ریاست کے اراکین میں شمار ہوتے ہیں۔شعر گوئی کی ابتداء ایامِ طالب علمی ہی میں ہو گئی تھی اور اس میں اپنے قابل بزرگ مرزا عبد الغنی ارشد گورگانی(بہادر شاہ ظفر کے پڑنواسے، پیدائش قلعہ معلےٰ دھلی، ۱۸۵۷ ء جنگِ آزادی کے بعد بعمر سات سال مقیم قطب صاحب ۔راقم) سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ کمال ظریف و شوخ طبع و بلا کے ذہین ہیں۔ غزل کم کہتے ہیں، باوجود کوشش آپ کا تازہ کلام دستیاب نہ ہوا، چند اشعار ابتدائی مشق سے بہم پہنچے وہ درج کیے جاتے ہیں ، مزاج کی شوخی اس میں بھی اپنی جھلک دکھا رہی ہے۔ بن باسی رستم کا قصہ انہی کی شوخیء طبع کا نثری نتیجہ ہے جو کسی انگریزی رسالے سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔
(اب مجبوری ہے، آپ بتایئے اس زندہ غزل سے کونسا شعر شکار کرتے کہ مضمون کچھ سمٹتا۔۔۔میں جتنا سمیٹوں وہ بکھرتا جائے۔۔(
شیخ نے جانے کیوں کی توبہ
مے سے اچھی کب تھی توبہ
کعبہ گرجا اور بت خانہ
گھر گھر جھانکی میری توبہ
زاہد تیرا دل تو نہیں ہے
رنج ہے کیا گر ٹوٹی توبہ
واعظ کر لو گرمی گرمی
ساون آیا ٹوٹی توبہ
آخر زاہد کی بیٹی تھی
رندوں میں جی ٹکتی توبہ
میری صورت دیکھی آئی
سیرت دیکھی بھاگی توبہ
واعظ کہہ دیں اور ہم کر لیں
گھر کی لونڈی سمجھی توبہ
بادل گرجے بجلی چمکی
مینہ کے ڈر سے بھاگی توبہ
کس کو خبر ہے واں کی زاہد
تو نے ناحق کر لی توبہ
مولوی صاحب کیوں نہ کرتے
ان کی ر وٹی تھیں بی توبہ
میں اور ایسا کام کروں گا
توبہ توبہ کیسی توبہ
واعظ اب تو جاڑا آیا
کس کی توبہ کیسی توبہ
لہری بندے ہی جو ٹھہرے
آ گئی دل میں کر لی توبہ
واعظ اپنا دل تو دیکھو
یوں ہی خالی خولی توبہ
دیکھو بزمی اب بھی کر لو
کام وہاں پر دے گی توبہ "
(خمخانہء جاوید ۔لالہ سری رام دہلوی، جلد اول، مطبوعہ ۱۹۰۸ء مطبع مُنشی نول کشور،لاہور)
جن دنوں مرزا اشرف گورگانی بسلسلہء روزگار ریاست بہاولپور میں مشیر تصریفات مقرر تھے مولوی سید ممتاز علی(جنہوں نے بچوں کا مشہور رسالہ پھول جاری کیا، اور جو امتیاز علی تاج کے والد تھے) کے مشورے پر ایک کتاب بطرز جنگل بک مرتب کرنے کی ٹھانی۔ مرکزی خیال مولاناصاحب مذکور کا یہ تھا کہ بچوں کے لیے کہانیاں ایک نئے انداز میں لکھی جائیں اور روایتی قصے کہانیوں سے ہٹ کر کچھ الگ پیش کیا جائے، سلاستِ بیان، خوش طبعیِ مزاج اور شوخی بیان شرط ٹھہری اس قصے کا راوی مقرر ہونے کی، کہ خرد سال بچوں کے ذہن تک رسائی سہل ہو اور قصے کا خاکہ یا پلاٹ مذکورہ کتاب سے ماخوذ بس اتنا ہی ہو کہ ہمارے دیسی بچوں کی طبع رسا جس کی بخوبی متحمل ہو سکے چہ جائیکہ ان کے دماغ کا بوجھ ہی بن کے رہ جائے۔
۲۵ جنوری ۱۹۰۱ ء، مرقومہ لاہور دیباچے میں مولانا کہتے ہیں (انہی کے املا اور بندشِ الفاظ پیش ہیں) "مجھ کو اس کتاب کے لکھانے سے سوائے اس کے کوئی اور مقصد نہیں کہ ہماری قوم میں پاکیزہ مذاق کا دلچسپ علم و ادب پیدا ہو۔ اس میں کہیں کہیں کوئی بات نصیحت کی نکل آئی ہے وہ "روکن" میں آئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مختصر سا قصہ پڑھنے والوں کے دلوں پر کچھ نہ کچھ اثر کیے بغیر نہ رہے گا۔ بچے پڑھیں گے اور ہنسینگے، ہوشیار پڑھیں گے اور مسکرائینگے۔ فلسفیوں سے ڈر لگتا ہے ، وہ پڑھیں گے اور ناک چڑھائینگے"۔
گویا اس وقت تنقید نگار صاحبان "فلسفی" کے شوگر کوٹ میں ہوتے تھے (راقم)۔ خیر اس جملہء معترضہ سے قطع نظر اس کتاب میں وہ تمام خصائص بدرجہ اتم موجود ہیں کہ جن کی بنیاد پر دہلوی نثر نگاری کا قصر ایستادہ ہے (کہ ہمیشہ اس کا اقبال زیادہ رہے، جب تلک گنگا جمنا بہے)۔ محاورے میں رچی بسی خوبصورت زبان دہلوی نثر کا وہ طرّہ امتیاز ہے کہ جو آج تلک ہم جیسے مبتدی نثر نگاروں کو متاثر کرتا ہے اور اپنے رنگ رنگے جانے پر مجبور کرتا ہے۔تو، یاران والا تبّار، ایسا ہی ایک رنگریز مرزا محمد اشرف صاحب گورگانی دہلوی کی صورت ہمیں تب میسر آیا کہ جب یہ کتاب کھولی اور بظاھر بچوں کے لیے لکھی گئی سادی لیکن بہ باطن نہایت گہری اور خوبصورت نثر پڑھنی شروع کی، اب پڑھنا شروع کی تو کتاب رکھ کر اٹھ نہ سکے اور اس باریک سی کتاب نے خود کو ہم سے بزور تحریر ختم کروایا۔زیرِنظرنسخہ ۱۹۲۰ ء مطبوعہ یونی ورسل پریس لاہور کا ہے۔
قصہ بسم اللہ سے شروع ہوتا ہے، اور ابتدایہء متقاضی ہے کہ اسے بھی قوسین میں درج کیا جائے، کہ طبع لطیف اس شاہجہانی نثر کی تلخیص پر آمادہ نہیں ہوتی؛
" اس اجڑے دیار شاہجہاں آباد میں اب بھی ایسے مکان موجود ہیں جو اسلام کی گزری شوکت کے شاہد ہیں، جن میں ایک زمانے میں دودمان مغلیہ مشرقی تزک و شان کے ساتھ زندگی بسر کیا کرتے تھے ۔ اگرچہ وہ صورتیں اس وقت دہلی کے گرد قبرستانوں میں پاؤں پھیلائے سو رہی ہیں لیکن ان کی یادگاریں ابھی تک زمانے کے مہلک ہاتھوں سے محفوظ ہیں۔ ایسا ہی ایک مکان تھا جس کو ایک مہاجن نے غدر میں کوڑیوں کے مول لیا تھا لیکن اس بھلے مانس نے اس کی صورت میں کوئی فرق نہ آنے دیا تھا "
اس مختصر سے نثری ٹکڑے میں، غور کیجیے گا، کس قدر درد سمایا ہوا ہے، ایک ایک لفظ دہلی پر بیتی آفت کا اظہاریہ ہے، اجڑا دیار، گزری شوکت، مشرقی تزک و شان، دہلی کے قبرستانوں میں پنہاں صورتیں، یادگاریں، زمانے کے مہلک ہاتھ ، غدر میں بے بھاؤ مسلمانوں کے اموال و املاک کا بِکنا اور پھر وہ نیک طبع مہاجن جو اِس خرابے کا واحد امین تھا، گویا ان پہلی چند سطور میں ہی مصنف نے کیا کیا نہ کہہ دیا!! ۔ خیر، قصہ کوتاہ، اس مکان میں ایک باغ تھا جس میں ایک نیولا رہتا تھا (چونکیے مت، قصہ جنگل بک سے متاثر ہے)، نیولے کا بچہ باغ میں پانی زیادہ چھوڑے جانے کی وجہ سے ڈوبنے لگا، بمشکل بچتا بچاتا درخت پر چڑھا، پیٹ کا پانی اُلٹا لٹک کر نکالا اور نیچے گر کر بیہوش ہو گیا، مکان میں مقیم مسلمان کرایہ دار کا بیٹا اسے اٹھا لایا، والدین نے تھوڑے پس وپیش کے بعد رکھنے کی اجازت دے دی، آگے زیادہ تر کہانی نیولے کی زبانی ہے، جس میں اس نے انسانوں کی دنیا دیکھی، مختلف جانوروں اور پرندوں سے ملاقات کی،ان کے حالات سے سبق سیکھا، مالکوں کا وفا دار رہ کر سانپوں سے ان کی جان بچائی اور انھیں مار دیا اور اس سب کے آخر میں اس باغ میں پرندوں اور جانوروں کا ایک مشاعرہ ہوا جو خاصے کی چیز ہے اور جس کا ذکر تبھی ہو گا جب شے مذکورہ کا ہوتا ہے۔
جی، توکچھ گفتگو کتاب کے محاسن پر ہو جائے؛
"جب سے نل جاری ہوئے، خاں صاحب نے اپنے مکان میں بھی نل لگوایا تھا"
تو صاحب سارا فضحیتہ دراصل اس نل کا تھا، اب شہر میں نیا نیا رواج ہوا سرکاری نلوں کا، حسبِ روایت، امراءو نوابین نے پہلے پہل یہ سہولت حاصل کی، خاں صاحب نے بھی نل لگوا، تال تلیاں بھر لیں، کسی روز باغیچے میں موجود نل ٹوٹ گیا اور چوں کہ موسم بھی برسات کا تھا تو زمین پہلے ہی پانی نگل نگل کر عاجز تھی، سارا پانی صحن اور باغیچے میں جمع ہو گیا اور ہمارے نیولے میاں کسی طرح پانی میں ادھر ڈوبے ادھر نکلے کے مماثل تگ و دو کرتے کرتے موری سے نکل کر صحن میں آ گئے، بچ گئے مگر بے ہوش، ادھر خاں صاحب نے باہری کنجی (Valve۔انگریزی) سے پانی بند کیا، صحن کچھ خشک ہو کر کیچڑ میں تبدیل ہوا، انہیں دھوپ لگی تو ہوش آیا، مارے نقاہت کے سو رہے اور اسی سوتے میں سردی سے اکڑ کر بیمار ہو ئے اور آگے قصہ وہ، جو ہم نے بیان کیا۔۔۔
تلخیص چند صفحات کی بیان کرنے سے مقصود تھا کہ آپ اس زمان و مکاں سے کسی حد واقف ہو جائیں، دور انگریز کا ، ترقیاتی کام جاری ، خاں صاحب، جو غالباً خان بہادر یا کوئی نواب تھے اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر نل کے مستحق تو بہرحال قرار پائے،ساتھ ساتھ اپنے باغیچے میں بچھے ٹونٹیوں کے جال کی وجہ سے ایک مرکزی کنجی کے حقدار بھی ٹھیرے۔ گویا آپ دیگر مسلمانوں سے کچھ بہتر حال ہی میں تھے۔
ایک مقام پر جہاں بچہ بیمار نیولے کو اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے وہاں خاں صاحب کہتے ہیں "گردن پر سے پکڑ لو، پھرکچھ نہیں کہیگا، اور اٹھا لاؤ " راوی شاہد تو ہئی ہے، دروغ بر گردن بھی قبول، یہ طریقہ اکثر جانوروں کو پکڑنے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور بڑا اُستادانہ گر ہے، آپ نے اگر کبھی کوئی بلی پالی ہو تو آپ بہتر جان سکتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک رمزِ حکمت اپنی سمجھ میں آئی تو آپ کے گوش گزار کر دی، آپ مانیے نہ مانیے آپ کی مرضی، کہ قاری پر توراقم کا کوئی زور نہیں ماسوائے اس کے کہ خود خونچکاں ہوں یا خامے کو کریں۔
اب بیگماتی زبان کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے؛ " ارے او موئے تجھے خدا کی مار! اجی خدا کے واسطے مارو کمبخت کو، کہاں کی بلا تم نے گھر میں پال لی بیٹھے بٹھائے، غم نہ داری بزبخر''۔ (ترجمہ : اگر تمہیں کوئی غم نہیں ہے تو بکری خریدو ۔ یعنی مفت کی بلا اپنے پلے باندھ لی(
اب اردو تو اردو یہ فارسی ضرب المثل بھی کُلیتاً خواتین کا محاورہ ہے، اور یقین جانیئے یہ نثر کی خوبصورتی انہی کو زیبا تھی جو خود خاندان مغلیہ سے تھے اور اردو جن کی باندی تھی !!
نیولے کا نام رکھنے کا مسلہ درپیش ہے، مصنف رقم طراز ہیں؛
" دہلی کی عورتوں کو طوطوں کے نام رکھنے میں تو خاص مشق ہے، ہیرا من، مولا بخش، دلبر، بے نظیر، نذر علی، وفادار اور اسی قبیل کے نام جو کسی اصول پر نہیں رکھے جاتے، بہت سے موجود ہیں ۔مگر نیولے کا نام رکھنے میں بیگم صاحبہ کو بہت دِقّت ہوئی"
صاحبان، نیولے کا نام تو بعد میں اس کے بہت زیادہ چِک چِک کر کے بولنے کی وجہ سے "چِک چِک" ہی رکھا گیا، یہ بات لیکن سولہ آنے پاؤ رتی درست ہے کہ دہلی کی عورتوں کو نام رکھنے کا ملکہ حاصل تھا، خود ہمارے گھر میں ہماری دادی جو اگرچہ دہلی کی نہ تھیں، ناگپور کی تھیں، لیکن ان کے رکھے نام آج بھی امر ہیں، کوڑا اٹھانے کو جو خاتون آتی تھیں اور جن کاجزوقتی روزگار اُپلے تھاپنا بھی تھا، ان کا نام "گوبر شہزادی" رکھا گیا، ایک خاتون ہر کسی سے بہت جھگڑتی تھیں، گویا آتی جاتی ہوا سے بھی بیر تھا تو ان کا نام "جھربیری" رکھ دیا۔وہ خاتون جو بہت سخت لہجے میں بات کرتی تھیں گویا لٹھ ہی مار دیں گی، تو ان کا نام "کلہاڑن" رکھ دیا، ایسی ہی ایک اور خاتون ملیں تو تخلیقی صلاحیت ماند نہ ہوئی، "ہتھوڑن" نام پایا انہوں نے۔کوئی صاحب جو ہر وقت حواس باختہ رہتی تھیں "خلبتری" خطاب پایا اور خلعت سے سرفراز نہ ہوئیں۔
نیولے میاں کی کافی جانوروں سے دوستی تھی، جن میں چڑیاں، کوّے، مینا، فاختہ، شکر خورا شامل تھے، ایک دن باغ میں تلیر کہیں سے آیا، دیکھ کر بہت حیران ہوئے، ابھی اس سے بات چیت ابتدائی مرحلے ہی میں تھی کہ تلیر کو کوا آتا دکھائی دیا اور وہ "اب آمد تیمم برخاست" کا نعرہ مارتے اڑ گیا۔ اب کوے سے ان کی دوستی کافی زیادہ ہے اور وہ "کالے ماموں" کہلاتے ہیں، خیر کافی دیر کالے ماموں سے بات چلی، لیکن تمام موشگافیاں آخر میں مصنف ایک محاورے میں یوں بند کرتے ہیں گویا کوزے میں دریا سمو دیا، کوا بولا ہمارا کیا پوچھتے ہو، روزی کے لیے ہر سمت بھاگے پھرتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور پیراگراف ختم ہوتا ہے "روزِ نو روزئ نو" پر ۔ یعنی واقعی کوے کا تو ہر دن ایسا ہی نیا ہے جیسے کسی روزانہ کی اجرت والے مزدور کا ، مل گئی تو روزی،نہیں تو روزہ!!!
آگے ایک موقع پر جب سانپ شکر خورے کے بچوں کو کھاتا ہے تو مرزا صاحب لکھتے ہیں؛ شکر خوری بولی " کچھ بس نہیں چلتا، اپنی آنکھوں پر بس چلتا ہے، رو رہے ہیں" بھئی واہ، گویا باندھ دی بے بسی کی کائنات ایک مختصر جملے میں!!!۔۔۔ چند مزیدجملے دیکھیے؛
"نیولا خود اس فکر میں تھا کہ سانپ سے "ایک پانی" ہونا چاہیے "۔( یعنی ایک فیصلہ کن لڑائی ،جو کہ آگے بخوبی ہوئی)۔
"نیولے کی چپ مشہور ہے " ۔
نیولے صاحب ایک دودھ کی دکان میں ایک لنگڑے نیولے سے ملے تو ان سے ٹانگ کا حال کس قدر تمیز سے دریافت کیا ، ذرا توجہ کیجیے؛
"مجھے کئی دفعہ خیال آیا، کہ آپ سے پوچھوں کہ ٹانگ پر صدمہ کیوں کر آیا، مگر موقع نہ ملا "
تو اب آپ چراغ لے کر بھی ڈھونڈھیے تو اگلے وقتوں کی سی یہ وضع داری نہ ملے گی صاحبان علم، بہت کسی نے دید لحاظ کی تو پوچھے گا، آئی ایم سو سوری، یہ آپ کی ٹانگ کیسے کٹ گئی؟؟؟ وہاں تو معاملہ نیولوں کا تھا لیکن اس بیچ مصنف نے پوری اقدار واضح کر دیں۔
لنگڑا نیولا اپنے بیانیے میں مکان مالکن کا ذکر یوں کرتا ہے "آواز سے گھر والے جاگ اٹھے اور ایک مادہ آدمی جلدی سے روشنی لے آئی" مادہ آدمی اور روشنی کے مبہم الفاظ سے مکالمے میں ایک ندرت یوں آ گئی گویا نیولے ہی کی زبانی ہم سن رہے ہوں۔
ایک اور جگہ ہمارا یہی دوست یوں بولا "والد قبلہ، اللہ ان کو غریق رحمت کرے، فرمایا کرتے تھے کہ دو پاؤں کے جانوروں میں مادہ کے لیے ڈرپوک ہونا خوبی میں داخل ہے " ۔ اللہ اکبر!! کیا پر لطف بات کہلا گئے مرزا صاحب جانور کی زبانی !
لیجے یہ سطور تبصرے کے بغیر پیش کرتے ہیں، "سعید نے اس کو ایک بوٹی دی جو چِک چِک نے قوت ذائقہ کے پورے احساس کے ساتھ، جس طرح کوئی شکم پرور ملا کسی جواں مرگ کے فاتحے کی بریانی کھاتا ہے وہیں بیٹھے بیٹھے نوش فرمائی"
ایک اور زرّیں قول ؛
"چِک چِک بولا، کام کی بات کر آدمیوں کی طرح وقت ضائع نہ کر"
یہاں بن باسی رستم، یعنی نیولے میاں سانپ کو ختم کر چکے ہیں، اس خوشی میں سارے باغ میں عید کا سا سماں ہے آگے آپ مرزا صاحب کی زبانی پڑھیے؛
"کوّے، مینائیں، چڑیاں، طوطے اس طرح غل مچا رہے تھے جیسے دہلی کی دھوبنیں یا سرائے کی بھٹیارنیں لڑتے وقت مچاتی ہیں، لیکن شکر خورہ ایک امرود کی ٹہنی پر اپنی مادہ کے ساتھ بیٹھا ہوا بھیرویں میں سانپ کا نوحہ الاپ رہا تھا۔ نیولا امرود کے نیچے آیا اور شکر خورے کو پکارنے لگا، مگر وہ اس کی نہ سنتا تھا، اور یہ نوحہ ٹہنی پر ناچ کر اور کوڑی کی طرف، جہاں سانپ پڑا ہوا تھا، منہ چڑا کر گا رہا تھا"
نمونہ؛
" کس طرح بھرا کرتے تھے گلشن میں طرارے ہے ہے میرے کالے
ہیبت سے تری باغ میں مرعوب تھے سارے ہے ہے میرے کالے
بچے میرے اڑنے بھی نہ پاتے تھے کہ ان کو کھا جاتا تھا موذی
ناگن تجھے اب روئے گی کوڑی کے کنارے ہے ہے میرے کالے
تالاب میں مینڈک بھی نہ تھے تجھ سے اماں میں بے چارے ہمیشہ
ٹر ٹر ہی کیا کرتے ۔ ترے خوف کے مارے ہے ہے میرے کالے"
اب ناگن بھی مر چکی، اس بیچ طویل قصہ ہوا، لیکن ہم آپ کو سیدھا مشاعرے کی طرف لیے چلتے ہیں؛
"جتنے جانور باغ میں رہتے تھے، بسیرے کے وقت سے کچھ پہلے، مولسری کے اوپر اور نیچے حسب مراتب جمع ہوئے، غوک شاہ، المتخلص بہ مینڈک کی شاعری کی دھوم تھی، وہ میر مشاعرہ تجویز ہوئے"
شکر خورہ سے درخواست کی گئی کہ وہ آئیں اور کلام سنائیں، تو وہ گویا ہوئے؛
"طائر میں قوم کا ہوں، شکر خورہ نام ہے
امرود کے درخت پہ میرا قیام ہے
صیاد کا ہے خطرہ نہ کچھ خوف دام ہے
گلگشتِ باغ شغل ہے گانے سے کام ہے
سیتا ہوں اور گاتا ہوں دو کام کرتا ہوں
درزی کو اور گویے کو میں نام دھرتا ہوں "
دو صفحات کے بعد "اما بعد" ارشاد کرتے ہیں؛
"دل باغ باغ ہو گیا مرنے سے سانپ کے
دن رات ورنہ کٹتے تھے یہاں کانپ کانپ کے
کھا جاتا تھا وہ نظروں ہی میں بھانپ بھانپ کے
مر جاتے تھے پرند غریب ہانپ ہانپ کے
طاعون تھی، وبا تھی، جو کچھ تھی وہ مر گئی
گویا کہ باغ میں سے قضا کال کر گئی"
چِک چِک کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں؛
"اے ساکنانِ باغ!، کرو شکریہ ادا
چک چک نے سب کا ناگ سے پیچھا چھڑا دیا
ہیرو ہے، پٹریٹ ہے، خدا نے کرم کیا
پھر ویلیس و بروس کو یہاں زندہ کر دیا
چک چک کے دم کے واسطے منت مناؤ تم
پھیلا کے دم کو چونچ کو اپنی جھکاؤ تم"
اس کے بعد شاما چڑیا (یہاں انتظار صاحب یاد آ گئے) نے اور ماموں کالے نے اپنا کلام سنایا، پھر چھچوندر اور چمگاڈر کی باری آئی، آخر میں میر مشاعرہ پھدکتے پھدکتے تشریف لائے اور اپنا کلام بلاغت نظام سنایا جو کہ آخری چند صفحات صحیح طور نقل نہ ہونے کی وجہ سے ہم آپ تک نہیں پہنچا سکے۔
"مینا نے گوری کی ایک تان لگائی اور کہا، اڑ جا ارے پکھیرو، دن تو رہ گیا تھوڑا، پھُر، پھُر، پھُر۔۔۔فقط۔
تمام شد"
)پس نوشت : Jungle Book جس سے متاثر ہو کر بن باسی رستم لکھی گئی) کا ترجمہ باعنوان"زُلفی" محمد عنایت اللہ خاں صاحب نے ۱۰ستمبر ۱۹۰۱ ء میں مکمل کیا۔ وہ ترجمہ اُس کتاب کی پہلی کہانی کا تھا۔بتاریخ ۱۲جون ۱۹۰۲ ء دوسری کہانی کا دیباچہ "زُلفی"میں الگ سے دیا گیا ہے۔ ۱۹۵۹ ء میں دارالاشاعت پنجاب لاہور سے "بااہتمام تاج و حِجاب" یہ کتاب دوبارہ شائع ہوئی۔
محمد عنایت اللہ خاں صاحب شیکسپیئرکے تراجم کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔"بن باسی "
لفظ اس کتاب میں بھی استعمال ہوا ہے۔ دونوں کتابوں کی لفظیات میں ایک دوسرے سے استفادہ نظر آتا ہے۔ کون سی کتاب پہلے لکھی گئی، اگر دیباچہ پیشِ نظر رکھیں تو فیصلہ "بن باسی رستم"کے حق میں جاتا ہے۔
۲۳اکتوبر ۲۰۱۱ ء میں ڈان اخبار کے ایک انٹرویومیں اسلم فرخی صاحب نے زلفی کا تذکرہ بطورپسندیدہ کتاب کیا ہے۔