میرے زمانے کی دِلّی
دلی یوں تو بقول شخصے غدر سے پہلے ہی اجڑا نگر کہلانے لگی تھی اور غدر کے بعد اس کا رہا سہا جوبن بھی ختم ہوا۔ تاہم آزادی سے پہلے دلی میں ایسے بزرگوں کی ایک کھیپ موجود تھی جو اس شہر کے اگلے وقار کو آنکھوں میں بسائے اسے دوبارہ آباد کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ لوگ بھی میرے بچپن کی دلی کے ساتھ قصہ پارینہ ہوئے۔ اب بچا کیا ہے سوائے یادوں کی برات کے، جہاں تک میرا تعلق ہے، میں نے دلی شہر کی آبادی تو کیا اس کی کچھ پرچھائیاں سی دیکھی ہیں، جو کچھ دیکھا اور جو کچھ اگلے دلی والوں سے سنا ہے وہ میرا سرمایۂ حیات ہے۔ اس اوچھی پونجی پر میں یہ کہوں کہ میں نے دلی کی تہذیب رفتہ کا اس مضمون میں چرچا کیا ہے تو یہ مجھے زیب نہیں دیتا۔ میں کیا اور میری بساط کیا۔ ننگی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی۔ البتہ جو کچھ سنی سنائی باتیں ہیں اور بزرگوں کی بیان کردہ تحریروں میں پڑھا ہے اس پر تکیہ کر کے ہرزہ گوئی کا قصوروار ٹھہرا ہوں۔
احباب میرے اکثر مجھ سے کہتے ہیں کہ تو دلی کی زبان بولتا ہے۔ لہجے میں کوثر و تسنیم کی روانی اور قند و نبات کی مٹھاس ہے۔ میں بھلا اس ضمن میں کیا عرض کروں۔ مشک آنست کہ خودببوید نہ کہ عطار بگوید۔ اسے الطاف رحمانی سے تعبیر کروں تو بجا ہے اور فیضان خاک پاکِ دہلی کا کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔ میں نے جوتیاں ایسوں کی سیدھی کی ہیں جو طوطی صفت گویا ہوتے تو خلقت بنظرِ استحسان ہمہ تن گوش ہوجاتے تھے۔ بیرسٹر آصف علی، خواجہ حسن نظامی، آغا حیدر حسن دہلوی، اشرف صبوحی، ملا واحدی، مولانا احمد سعید اسیر دہلوی، شاہد احمد دہلوی، خواجہ محمد شفیع، لالہ مہیشور دیال، مرزا محمود بیگ اور بیرسٹر نورالدین احمد کے جو کلمات خوبیٔ تقدیر سے آویزۂ گوش ہوئے انہیں دل کے نہاں خانوں میں یوں سمولیا جیسے پھول کی پتیاں خوشبو کو سموتی ہیں یا ارگنوں کے پردے میں موسیقی کے سر سما جاتے ہیں۔
امریکہ کے کسی شہر کی فلک بوس عمارتوں کو دیکھ کر ایک دانشور نے کہا تھا کہ ان عمارتوں کے مکین آسمان کی سرگوشیاں تو سن لیتے ہیں، مگر پیرس اور لندن میں رہنے والوں کے برعکس ان کا رشتہ زمین کے ساتھ استوار نہیں ہے۔ اساطیر، روایات اور تہذیب کا لوگوں کی زندگی میں وہی درجہ ہے جو فرد کی زندگی میں حافظے کا ہوتا ہے۔ حافظہ باطل ہوا تو انسان صرف چوپایہ ہو کر رہ جائے گا۔ بظاہر یادوں کا عمل بے معنی اور بے سود دکھائی دیتا ہے۔ کچھ لوگ تو اسے مریضانہ انداز فکر سے تعبیر کرتے ہیں مگر اس شغل کی معنویت کا طلسم ان پر کھلتا ہے جو احساس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یادیں ہماری شخصیت کی بنیاد ہیں۔ یادیں نہ ہوں تو ماضی نہیں رہتا اور ماضی بغیر حال کی اہمیت ایک غیر مشخص غبار سے مطلق زیادہ نہیں ہے۔
غدر اس اعتبار سے تو ایک اہم واقعہ ہے کہ اس نے مغلوں کے سیاسی اقتدار کا خاتمہ کردیا تھا، لیکن مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور قلعہ والوں کی زندگی کا نقش دلی والوں کے دلوں پر اتنا گہرا تھا کہ فرنگی راج اسے مندمل نہ کرسکا۔ دلی کے امراء اور رؤساء ہنگامے کے دوران تو دلی چھوڑ کر ادھر ادھر نکل گئے، لیکن امی جمی ہوتے ہی لوٹنے لگے۔ دہائیوں کے بعد دلی والے واپس شہر میں آئے تو ان کے ساتھ باہر والے بھی جوق در جوق یہاں آکر آباد ہوگئے۔ باہر والوں کو دلی ہمیشہ راس آتی رہی۔ ہماری دادی پردادی کہتی تھیں کہ دلی یہاں والوں کی بیوی ہے اور باہر والوں کی ماں۔ پوچھا کیوں تو بتایا کہ بیوی کی نگاہ شوہر کی جیب پر رہتی ہے اور ماں کی نگاہ اولاد کے پیٹ پر رہتی ہے۔ میرے بچپن میںدلی کی آبادی قریب قریب دس لاکھ ہوگی۔ ان میں یقینا باہر والوں کی اکثریت تھی، لیکن تہذیب کی کمان دلی کے پرانے رئیسوں کے ہاتھ میں تھی۔ کرخندار بھی جو کچھ سیکھتے تھے قلعہ والوں یا رئیسوں سے سیکھتے تھے، البتہ بعد میں ان کے اپنے مزاج کا رنگ غالب آجاتا تھا۔ بے چارے کرخنداروں پر فرنگی عہد میں بڑی لعن طعن کی جاتی تھی۔ کوئی ان کے رہن سہن کا مذاق اڑا تا تھا کوئی ان کی بولی ٹھولی پر ناک بھوں چڑھاتا تھا، مگر واقعہ یہ ہے کہ کرخندار بڑے غیور اور لمبی ناک والے تھے۔ غدر کے بعد جب انگریزوں نے دلی میں عوام اور کاریگروں کو سیاسی مصلحت کے تحت رجھانے اور مراعات سے نوازنے کی کوشش کی تو انہی کارخانے داروں نے ان مراعات کو ٹھکرا کر اپنے دست و بازو پر زندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ امراء قلعے کی روایات کو اپنے دیوان خانوں میں سنبھالے بیٹھے رہے اور عوام نے چھوٹے موٹے پیشے اپنا کر دست کاری کے ذریعہ روزی کمانے کا سامان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دلی میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا رواج بہت دیر سے ہوا۔ اگر بنظر غور دیکھا جائے تو یہ کاریگری، دست کاریاں، گھریلو صنعتیں بھی تعلیم ہی کے ایک شق ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تعلیم صرف ذہنی جمناسٹک کا نام نہیں ہے۔ انگلیوں اور ہاتھوں پر دکھائے گئے کمالات بھی تعلیم کے زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں۔ دلی والے مدت تک غدر سے پہلے کی دلی کو یاد کر کے آنسو بہاتے رہے اور جیتے جی مغلیہ روایات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ سچ پوچھیے تو یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ البتہ زمانے کی افرا تفری اور بیرونی مداخلت نے اسے کچھ کا کچھ کردیا ہے۔
نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے
کبھی روئے کبھی سجدے کیے شاخِ نشیمن پر
دوسری جنگ عظیم کے بعد دلی میں تعلیم بھی عام ہوگئی تھی، یہاں تک کہ عورتوں میں بھی حصول تعلیم کا رجحان بڑھا تھا۔ چنانچہ گھاس کی منڈی، دریا گنج، کشمیری دروازے کے پاس لڑکیوں کے اسکول بھی کھولے گئے تھے۔ ان اسکولوں میں میٹرک تک تعلیم کا انتظام تھا۔ نئی روشنی گھروں میں پہنچ رہی تھی۔ پردہ باغ میں مینا بازار لگتا تھا، اس میں یوں تو دلی کی قابل ذکر خواتین باقاعدگی سے شرکت کرتی تھیں، مگر اس وقت کی روح رواں مسز آصف علی تھیں۔ آصف علی کی پرانے طرز کی عالیشان حویلی میں رہ کر ارونا آصف علی نے خود کو دلی والوں کے رنگ میں رنگ لیا تھا۔ آصف علی کی والدہ کی طرح رقیہ سلطان، غالب کی رشتے دار حمیدہ سلطان اور فخرالدین علی احمد کی والدہ خود اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ ان خواتین کا گھرانہ دلی کی تہذیب کا آئینہ دار تھا۔ ان کا لباس، بول چال، رہن سہن سب دلی والوں کا تھا، حالانکہ ان کے شوہر آسام کے رہنے والے تھے۔ میٹھی سریلی آواز، مخاطب کرنے کا پیار بھرا انداز، خاطر مدارات میں نمائش کی جگہ خلوص، ہر چیز اس صدیوں پرانی تہذیب میں رچی بسی جو ان کو ورثے میں ملی تھی۔
احباب میرے اکثر مجھ سے کہتے ہیں کہ تو دلی کی زبان بولتا ہے۔ لہجے میں کوثر و تسنیم کی روانی اور قند و نبات کی مٹھاس ہے۔ میں بھلا اس ضمن میں کیا عرض کروں۔ مشک آنست کہ خودببوید نہ کہ عطار بگوید۔ اسے الطاف رحمانی سے تعبیر کروں تو بجا ہے اور فیضان خاک پاکِ دہلی کا کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔ میں نے جوتیاں ایسوں کی سیدھی کی ہیں جو طوطی صفت گویا ہوتے تو خلقت بنظرِ استحسان ہمہ تن گوش ہوجاتے تھے۔ بیرسٹر آصف علی، خواجہ حسن نظامی، آغا حیدر حسن دہلوی، اشرف صبوحی، ملا واحدی، مولانا احمد سعید اسیر دہلوی، شاہد احمد دہلوی، خواجہ محمد شفیع، لالہ مہیشور دیال، مرزا محمود بیگ اور بیرسٹر نورالدین احمد کے جو کلمات خوبیٔ تقدیر سے آویزۂ گوش ہوئے انہیں دل کے نہاں خانوں میں یوں سمولیا جیسے پھول کی پتیاں خوشبو کو سموتی ہیں یا ارگنوں کے پردے میں موسیقی کے سر سما جاتے ہیں۔
امریکہ کے کسی شہر کی فلک بوس عمارتوں کو دیکھ کر ایک دانشور نے کہا تھا کہ ان عمارتوں کے مکین آسمان کی سرگوشیاں تو سن لیتے ہیں، مگر پیرس اور لندن میں رہنے والوں کے برعکس ان کا رشتہ زمین کے ساتھ استوار نہیں ہے۔ اساطیر، روایات اور تہذیب کا لوگوں کی زندگی میں وہی درجہ ہے جو فرد کی زندگی میں حافظے کا ہوتا ہے۔ حافظہ باطل ہوا تو انسان صرف چوپایہ ہو کر رہ جائے گا۔ بظاہر یادوں کا عمل بے معنی اور بے سود دکھائی دیتا ہے۔ کچھ لوگ تو اسے مریضانہ انداز فکر سے تعبیر کرتے ہیں مگر اس شغل کی معنویت کا طلسم ان پر کھلتا ہے جو احساس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یادیں ہماری شخصیت کی بنیاد ہیں۔ یادیں نہ ہوں تو ماضی نہیں رہتا اور ماضی بغیر حال کی اہمیت ایک غیر مشخص غبار سے مطلق زیادہ نہیں ہے۔
غدر اس اعتبار سے تو ایک اہم واقعہ ہے کہ اس نے مغلوں کے سیاسی اقتدار کا خاتمہ کردیا تھا، لیکن مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور قلعہ والوں کی زندگی کا نقش دلی والوں کے دلوں پر اتنا گہرا تھا کہ فرنگی راج اسے مندمل نہ کرسکا۔ دلی کے امراء اور رؤساء ہنگامے کے دوران تو دلی چھوڑ کر ادھر ادھر نکل گئے، لیکن امی جمی ہوتے ہی لوٹنے لگے۔ دہائیوں کے بعد دلی والے واپس شہر میں آئے تو ان کے ساتھ باہر والے بھی جوق در جوق یہاں آکر آباد ہوگئے۔ باہر والوں کو دلی ہمیشہ راس آتی رہی۔ ہماری دادی پردادی کہتی تھیں کہ دلی یہاں والوں کی بیوی ہے اور باہر والوں کی ماں۔ پوچھا کیوں تو بتایا کہ بیوی کی نگاہ شوہر کی جیب پر رہتی ہے اور ماں کی نگاہ اولاد کے پیٹ پر رہتی ہے۔ میرے بچپن میںدلی کی آبادی قریب قریب دس لاکھ ہوگی۔ ان میں یقینا باہر والوں کی اکثریت تھی، لیکن تہذیب کی کمان دلی کے پرانے رئیسوں کے ہاتھ میں تھی۔ کرخندار بھی جو کچھ سیکھتے تھے قلعہ والوں یا رئیسوں سے سیکھتے تھے، البتہ بعد میں ان کے اپنے مزاج کا رنگ غالب آجاتا تھا۔ بے چارے کرخنداروں پر فرنگی عہد میں بڑی لعن طعن کی جاتی تھی۔ کوئی ان کے رہن سہن کا مذاق اڑا تا تھا کوئی ان کی بولی ٹھولی پر ناک بھوں چڑھاتا تھا، مگر واقعہ یہ ہے کہ کرخندار بڑے غیور اور لمبی ناک والے تھے۔ غدر کے بعد جب انگریزوں نے دلی میں عوام اور کاریگروں کو سیاسی مصلحت کے تحت رجھانے اور مراعات سے نوازنے کی کوشش کی تو انہی کارخانے داروں نے ان مراعات کو ٹھکرا کر اپنے دست و بازو پر زندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ امراء قلعے کی روایات کو اپنے دیوان خانوں میں سنبھالے بیٹھے رہے اور عوام نے چھوٹے موٹے پیشے اپنا کر دست کاری کے ذریعہ روزی کمانے کا سامان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دلی میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا رواج بہت دیر سے ہوا۔ اگر بنظر غور دیکھا جائے تو یہ کاریگری، دست کاریاں، گھریلو صنعتیں بھی تعلیم ہی کے ایک شق ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تعلیم صرف ذہنی جمناسٹک کا نام نہیں ہے۔ انگلیوں اور ہاتھوں پر دکھائے گئے کمالات بھی تعلیم کے زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں۔ دلی والے مدت تک غدر سے پہلے کی دلی کو یاد کر کے آنسو بہاتے رہے اور جیتے جی مغلیہ روایات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ سچ پوچھیے تو یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ البتہ زمانے کی افرا تفری اور بیرونی مداخلت نے اسے کچھ کا کچھ کردیا ہے۔
نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے
کبھی روئے کبھی سجدے کیے شاخِ نشیمن پر
دوسری جنگ عظیم کے بعد دلی میں تعلیم بھی عام ہوگئی تھی، یہاں تک کہ عورتوں میں بھی حصول تعلیم کا رجحان بڑھا تھا۔ چنانچہ گھاس کی منڈی، دریا گنج، کشمیری دروازے کے پاس لڑکیوں کے اسکول بھی کھولے گئے تھے۔ ان اسکولوں میں میٹرک تک تعلیم کا انتظام تھا۔ نئی روشنی گھروں میں پہنچ رہی تھی۔ پردہ باغ میں مینا بازار لگتا تھا، اس میں یوں تو دلی کی قابل ذکر خواتین باقاعدگی سے شرکت کرتی تھیں، مگر اس وقت کی روح رواں مسز آصف علی تھیں۔ آصف علی کی پرانے طرز کی عالیشان حویلی میں رہ کر ارونا آصف علی نے خود کو دلی والوں کے رنگ میں رنگ لیا تھا۔ آصف علی کی والدہ کی طرح رقیہ سلطان، غالب کی رشتے دار حمیدہ سلطان اور فخرالدین علی احمد کی والدہ خود اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ ان خواتین کا گھرانہ دلی کی تہذیب کا آئینہ دار تھا۔ ان کا لباس، بول چال، رہن سہن سب دلی والوں کا تھا، حالانکہ ان کے شوہر آسام کے رہنے والے تھے۔ میٹھی سریلی آواز، مخاطب کرنے کا پیار بھرا انداز، خاطر مدارات میں نمائش کی جگہ خلوص، ہر چیز اس صدیوں پرانی تہذیب میں رچی بسی جو ان کو ورثے میں ملی تھی۔
دِلّی کی باتیں
موجودہ نسل جس نے اپنے تئیں دین، دھرم، تہذیب، تمیز، نیکی اور بھلمنسائی سب سے آزاد کرلیا ہے۔ اگلے لوگوں کی شرافت اور نیک نفسی کو بھلا کب تسلیم کرے گی۔ ان کے کان میں تو شیطان نے یہ صور پھونکا ہے کہ علم، اخلاق، انسانیت اور غیرت جیسی ان میں پائی جاتی ہے ویسی نہ کبھی تھی نہ آئندہ ہوگی۔ بس یہی خوش فہمی ہے جس کے باعث آج کے دور کا ہر شخص افلاطون بنا پھرتا ہے جسے دیکھئے بغلیں کھولے، گردن اکڑائے فوں فوں کرتا رعونت سے زمین روندتا ہے، اللہ اللہ کسی کو اپنے آگے گردانتا ہی نہیں۔ جدید فلسفیوں اور سائنس دانوں کو اللہ معاف کرے، اپنا خدا بنایا ہے کہ ان کی بات سے سرمو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ ہاں باپ دادا، بزرگوں، پیر فقیر اور پیغمبروں پر جتنے چاہو اعتراض کرالو۔ ان کی نظر میں اگلے لوگ سفاک، جاہل، کم کوش، بدعقیدہ، اوہام پرست اور نہ جانے کیا کیا تھے۔ اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہیں، اس وہم میں مبتلا ہیں کہ جو میرے ہے سو راجہ کے نہیں۔ اب آپ ہی بتائیے ایسے حالات میں اگر میں قدیم دلی والوں کی نیک خصلتی، علم دوستی اور وضع داریوں کا رونا رونے لگوں تو کون سننے کا روا دار ہوگا۔ پھر یہ کہ وہ دلی والے جو خاک نشینی میں کج کلاہی اور فقیری میں شاہی کیا کرتے تھے یا تواللہ کو پیارے ہوگئے یا بٹوارے کی افرا تفری میں دیس چھوڑ بدیس جابسے۔ غرض یہ کہ اب دلی والوں کی خوبیاں درگور اور در کتاب ہیں، جس کے دیدے روشن ہیں وہ دیکھتا سمجھتا اور تسلیم کرتا ہے، جس کے پھوٹ گئے وہ بھلا کیوں ان دیکھی باتوں پر ایمان لائے گا۔
اس کے علاوہ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ مجھے آتا جاتا تو کچھ ہے نہیں، لکھتا ہوں تو قلم ساتھ نہیں دیتا، بولتا ہوں تو یہ جیسے طوطا ادوان پہ چڑھتا ہے۔ زبان لڑکھڑاتی ہے نہ علم و ہنر کچھ حاصل کیا، نہ عالموں اور ہمہ دانوں کی صحبت نصیب ہوئی۔ اس تہی مائیگی پر زبان کھولوںگا تو آپ ہی نکو بنوںگا۔ اپنی بات منوانی تو درکنار پوری طرح کہنے کا بھی مجھے سلیقہ نہیں۔ دلی پر عروج و زوال کی کہانی وہ سناتے تھے، جنہیں بارگاہ ایزدی سے زبان و بیان پر قدرت بخشی گئی تھی۔ میر باقر علی داستان گو یا مرزا فرحت اللہ بیگ اللہ بخشے زندہ ہوتے تو اپنی بات مار مار کے منوالیتے۔ بات یہ ہے کہ ان کی زبان میں جادو تھا۔ علم و فن انہوں نے ورثے میں پایا تھا۔ اگلے لوگوں کی صحبت اٹھائی تھی۔ حصول کمال کے لیے راتیں کالی کی تھیں۔ آنکھوں کا تیل نکالا تھا، جب کہیں جا کر یہ رتبہ انہیں حاصل ہوا تھا۔ مجھ ایسوں کی طرح تھوڑی کہ دس پندرہ سال کسی تعلیمی ادارے میں جھک مارا، دو چار لفظ انگریزی کے پڑھے، اپنی زبان چھوڑ ایک ست بیجھڑی زبان اپنائی اور تعلیم یافتہ لوگوں میں شمار کیے جانے لگے۔ آنکھوں کے اندھے نام نین سکھ ایک ڈگری ہے جو کل سرمایۂ حیات ہے۔ ننگی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی۔ آپ ہی آپ کڑھتا ہوں، جب گریبان میں منہ ڈالتا ہوں تو گردن شرم سے جھکی کی جھکی رہ جاتی ہے۔ دلی میں پیدا ہوا، دلی میں پلا بڑھا، مگر پرانے دلی والوں کی خوبو کچھ مجھ میں نہیں پائی جاتی۔ مجھ پر تو وہ مثل صادق آتی ہے کہ دلی میں رہے اور بھاڑ جھونکا۔ اب احساس اپنے جہل کا ہوتا ہے تو اس کا مداوا نہیں کرسکتا۔ عمر عزیز غفلت میں کاٹ دی اور اگر اس ڈھلتی چھاؤں میں بیڑا بھی اٹھاؤں تو کس کے پاس بیٹھوں کس کی باتیں سنوں جو کچھ بصیرت مجھے بھی حاصل ہو، انقلابات کی باد سموم نے پروانوں کی خاک تک نہ چھوڑی۔ جو لوگ دہلوی تہذیب کی رسی کو دانتوں سے پکڑے رہے، ایک ایک کر کے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ فلک تفرقہ پرواز نے وہ تاک کے پتھر مارا کہ دلی شہر کے آثار تک نیست و نابود کردئے۔ اب لوگ جسے دلی پکارتے ہیں وہ ایک اجڑا دیار ہے، حویلیاں، چھتے، ڈیوڑھیاں، درو دیوار، طاق اور محرابیں سب دیکھتے دیکھتے دکانوں اور گوداموں کے جنگل میں بدل گئیں۔ جدھر نگاہ اٹھتی ہے پانچ چھ منزل کے مکان بنے دکھائی دیتے ہیں۔ نیچے بڑی بڑی مارکیٹیں ہیں۔ زمین کھود کر گودام نکالے گئے۔ دنیا کی چیزیں ان گوداموں میں بھری پڑی ہیں اور خلقت کا اژدہام خدائی خوار یوں مارا مارا پھرتا ہے جیسے کہیں سے ٹڈی دل نکل پڑا ہو، بھلے آدمی کو دیکھنے سے وحشت ہوتی ہے، ایسے میں بس اپنا گھر بھلا اور آپ جو لوگ میری طرح ہوس دنیا سے بھرپائے وہ گوشۂ عافیت میں پڑے رہتے ہیں اللہ اللہ خیرصلا۔ نہ دلی کا یہ حال خراب دیکھیں گے نہ آنکھوں سے لہو کی دھاریں نکلیں گی۔ میاں اب یہ شہر غالب کے زمانے کا کیمپ اور چھاؤنی نہیں۔ خدا آباد رکھے منڈی بن گیا ہے کہنے والے کہتے ہیں کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پورے ایشیا میں یہاں کے بیوپاریوں نے تجارت کا میدان مارا ہے۔ کروڑوں روپے کی روز لوٹا پھیری ہوتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ہاتھی مرے پہ بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے، وہ اب دلی کا حال ہے۔ کبھی یہ بین الاقوامی شہر تھا، سیاح، فن کار، ہنرمند چار کھونٹ سے یہاں آتے اور اپنے کمالات کی داد پاتے تھے، اب وہ اہل علم اور اہل کمال نہیں آتے یا کم آتے ہیں تو ان کی جگہ ہزاری ہزاری کار و باریوں نے لے لی۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ دلی میں تجار کو کم نگاہی سے دیکھا جاتا تھا، اس لیے نہیں کہ ان سے خدا واسطے کا بیر تھا، بلکہ اس لیے کہ یہ بے چارے رات دن ننانوے کے پھیر میں پڑے رہتے ہیں۔ صبح اٹھے اور چابیاں لے کے دکان کو سدھارے شام کو آگے گھر میں پڑے رہے۔ دلی والے جو اپنے تئیں فخر سے دلی والا کہتے تھے وہ کئی کئی گھڑیاں دیوان خانوں میں گزارتے تھے۔ ادھر ادھر کی گپیں ہانکتے جب زبان خراد پر چڑھتی تھی اور دماغ یوں پرواز کرنے لگتا تھا جیسے معجونِ فلک سیر کھائی ہو۔
دلی کے دکان داروں کی بھی عجیب شان تھی۔ صبح نو دس بجے تو گھر سے نکل کر جاتے تھے، ذرا دوپہر ہوئی اور سورج نے سر اٹھایا تو انہوں نے نوکر سے کہہ کے پردے چھڑوا دئے۔ سفید براق چاندنی پر گاؤ تکیہ اور بغلی تکیے لگائے مزے سے بیٹھے رہے، جو کوئی اللہ کا بندہ ان کی روزی کا فرشتہ بن کر آتا اسے بٹ لیتے تھے، یہ نہیں کہ آتے جاتے کو بیواؤں کی طرح اشاروں سے بلارہے ہیں۔ پڑوسی دکانداروں کی ٹوہ میں لگے بیٹھے ہیں۔ یہی کوشش کرتے ہیں کہ بس ایک میں رہ جاؤں اور ساری دنیا سے دکانداروں کا اوڑا پھرجائے۔ توبہ توبہ انہیں باتوں سے آدمی خوار ہوتا ہے، انسانیت سے گرجاتا ہے۔ ہاؤ ہاؤ جو کرموں لکھا سوپاؤ۔ فصیل کے اندر جو دکاندار تھے خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، بڑے سیر چشم تھے۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے یہاں تک سنا ہے کہ جب ان کی بھرت پوری ہوجاتی تھی تو گاہک کو پڑوس میں بھیج دیتے تھے۔ اول تو جہاں گلے میں روٹی دال کے پیسے آئے اور انہوں نے نوکروں کو حکم دیا کہ چلو بھئی دکان بڑھادو اب کہیں سیل سپاٹے کو جائیں گے۔
دلّی کےموسم
متمدن شہروں کی عام کمزوری یہ ہے کہ وہاں کے لوگ فطرت اور اس کی بوقلمونی سے کوئی خاص لگاؤ نہیں رکھتے، دلی اس کلیہ سے مستثنیٰ ہے۔ دلی والوں نے آریہ ورت کے کاشتکاری کردار کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ یہاں کے موسموں میں بھی اعتدال کی بجائے شدت پائی جاتی ہے۔ گرمی پڑتی ہے تو ایسی کہ خلقِ خدا تراہ تراہ پکارتی رہے۔ جاڑے کا یہ عالم کہ اچھا خاصا انسان سردی کے موسم میں بنولا بن جاتا ہے اور برسات میں جب جھڑی لگتی ہے تو ہر سمت جل تھل دکھائی دیتے ہیں۔ ان شدید موسموں سے لطف اندوز ہونا اور ایک ایک رت کا بھرپور مزا لینا دلی کے خوش مزاجوں ہی کا کام ہے۔
گرمی کے موسم میں دلی والوں کا ایڑی سے چوٹی تک پسینہ بہتا ہے۔ جھلستا ہوا سورج اور جھلستی ہوئی زمین کے درمیان لوگ کباب سیخ کی طرح گھڑی گھڑی پہلو بدلتے ہیں۔ پھلر والے لال کمہلائے جاتے ہیں اور گلاب سے گال مرجھائے جاتے ہیں۔ لو کی وہ شدت ہوتی ہے کہ بھاڑ بھنتا ہے۔ مٹر کے دانے زمین پر پھینکو تو بھن کر چٹخنے لگیں۔ رات کو حبس ایسا ہوتا ہے کہ دم گھٹ جاتا ہے۔ اس پر بھی دلی والے کسی نہ کسی طرح دل بہلانے کے ڈھنگ ایجاد کرلیتے تھے۔ دن کو جھوانسے اور خس کی ٹٹیاں لگائی جاتی تھیں۔ ان پر پانی کے تریڑے پڑتے تھے، ہزارے چھوٹتے تھے۔ ہزاروں کے منہ پر پودینے کی گھٹیاں بندھی ہوتی تھیں۔ پانی میں گلاب ملایا جاتا تھا۔ پرانی حویلیوں میں تہہ خانے تھے۔ جب سورج اونچا ہوجاتا تو گھر والے تہہ خانوں میں اترجاتے تھے۔ شام کے لگ بھگ ان تہہ خانوں سے نکلتے، نہاتے دھوتے، جوڑے بدلتے، شربت پیتے، پان کی گلوری منہ میں دباتے اور سیر کرنے نکل جاتے تھے۔ جن کے پاس ریڑھیاں اور تانگے تھے، وہ ان میں ہوا کھاتے جن کے پاس اپنی سواری نہ تھی، وہ بیگم کے باغ اور فیروزشاہ کوٹلے میں جابیٹھتے تھے۔ آج کل خس خانوں کی جگہ کولروں نے لے لی ہے، مگر ان میں وہ بات کہاں جو ہزاروں اور خس خانوں میں تھی۔ کولر کی ہوا سے تو دن بدن لوگوں کے جسم میں درد اور نزلے کی شکایت پیدا ہورہی ہے۔ پرانے دلی والوں کی ایجاد کا ہنر یہ تھا کہ ان میں کوئی صورت خرابی کی نہ تھی۔ گرمی کا دف مرتا، دماغ کو فرحت نصیب ہوتی اور آدمی کی چونچالی میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔
ساون میں بارش کو ذرا دیر ہوجاتی تو بچے منہ پر سیاہی مل کر ٹولیاں بنا بنا کے گاتے پھرتے تھے۔ کالے ڈنڈے پیلے ڈنڈے برسے گا برسائے گا، کوڑی کھیت لگائے گا۔ لمبے لمبے کرتے پہنے فقیروں کی ٹولیاں محلے محلے گھومنے لگتی تھیں۔ اللہ کے نام کا بھنڈارا ہوگا۔ پھر ایک صاحب جو اس ٹولی کے سربراہ ہوتے چند خود ساختہ ناموزوں اشعار پڑھتے وہ رکتے تو سب مل کر ٹیپ کا مصرعہ اللہ کے نام کا بھنڈارا ہوگاباآواز بلند اٹھاتے تھے۔ لوگ حسب توفیق انہیں دان دیتے تھے۔ خدا جانے یہ بھنڈارا کب اور کہاں ہوتا تھا۔ ہوتا بھی تھا یا نہیں، مگر دینے والوں کی نیتیں ٹھیک تھیں۔ گھی کہاں گیا کھچڑی میں کھچڑی کہاں گئی پیاروں کے پیٹ میں۔ اللہ کی شان ان ٹوٹکوں سے بارش بھی ہوجاتی تھی۔ کڑک اور گرج کی آوازیں سن کر لوگ اندر دالان میں آبیٹھتے تھے۔ آسمان پر سہانی گھٹائیں جھوم جھوم کر آتی تھیں، اب جو دھونتال مینہ برستا تھا تو گرمی کے سارے دلدر دور ہوجاتے تھے۔ ایسے میں لڑکیاں بالیاں کاہے کو نچلی بیٹھتیں۔ بارش میں باہر تو نکل نہیں سکتی تھیں۔ پیش دالان کی چھت میں دو قلابوں کے درمیان بیلن پڑا ہوتا تھا، اس میں ووہرا جھولا فوراً ڈال دیا جاتا تھا۔ گنگا جمنی رسیاں اور لال سبز پٹڑیاں ڈال دو لڑکیاں آمنے سامنے پیر جوڑ جھولوں میں بیٹھ گئیں اور دو جھلانے لگیں۔ جھولا کن ڈارو رے امریاں۔ جھولے کا یہ گیت سنا ہے دلی کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا لکھا ہوا ہے۔ مینہ کا زور کم ہوا اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی تو گرمی سے جھلسے ہوئے بچے انگنائی میں جابیٹھے۔ پھوار میں بھیگنے سے بدن کی گرمی چھٹتی ہے۔ گرمی دانے مرتے ہیں اور بدن پر جولانی طاری ہوتی ہے۔
جاڑے کا موسم آتا تو اس کی آمد سے پہلے ساری تیاریاں کرلی جاتی تھیں۔ گرنٹ کے لحاف، پوت کی رنگا رنگ رضائیاں بنائی جاتی تھیں۔ تین چار مہینے کا ایندھن بخاریوں میں بھرلیا جاتا تھا۔ کھانے پینے کی چیزیں اور میوے جمع کرلیے جاتے تھے۔ سردی شروع ہوتے ہی لوگ مرغن غذائیں کھانے لگتے تھے۔ دن بھر دھوپ میں بیٹھے سنکا کرتے تھے اور شام ہوتے ہی رضائیوں میں دبک جاتے تھے۔ روئی بھرے کپڑے پہننے کا بھی رواج تھا۔ بڑے بوڑھے پجامے بھی ہلکی سی روئی بھرواکر پہنا کرتے تھے۔ عورتیں کشمیری شال اور دوشالے اوڑھا کرتی تھیں۔ جن عورتوں میں انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں تھی، وہ دلائیاں بنالیتی تھیں۔ رات کو اول وقت سے لوگ کام کاج چھوڑ کر ایک جٹ بیٹھ جاتے تھے۔ کوئی بڑی بوڑھی قصہ کہانی چھیڑ دیتی تھی۔ جب رات بھیگنے لگتی تو سوجاتے تھے۔ عام طور سے زمین پر سویا جاتا تھا۔ چھوٹے بچے آپس میں گڈ مڈ ہوئے پڑے رہتے تھے۔ صبح اٹھتے تو صحن میں ژالہ باری کی ننھی ننھی بوندیں دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ کبھی کبھی تو مٹکوں کا پانی جم جاتا تھا، غرض یہ کہ ہر موسم کا الگ الگ لطف تھا۔ آج کل دلی والوں کو یہ مزے کہاں ملتے ہیں۔ذرا گرمی پڑی، پنکھے اور کولر کھل گئے۔ نہ پسینہ آیا نہ بدن کی بھڑاس نکلی۔ کہتے ہیں پسینہ بھی اللہ کی طرف سے بدن کو صاف کرنے کا نظام ہے، یہ نہیں نکلتا تو اندر ہی اندر بیماریاں پلتی رہتی ہیں۔ مسام کھلتے نہیں تو جسم گرمی سے تپ جاتا ہے۔ گرمی گئی اور برسات آئی بتائیے اب جائیں کہاں۔ باغ بغیچے ختم ہوئے، دلوں پر مردنی چھا گئی ہے۔ جاڑے کا موسم ہیٹر کی نذر ہوا۔ کھانے پینے کی نعمتوں کا مہنگائی اور بے ایمانی نے صفایا کردیا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ نیت گیل برکت ہوتی ہے۔ سونیتیں خراب ہوگئیں تو دنیا کے مزے بھی ناپید ہوگئے۔ اب تو ہر موسم طبیعتوں کو ناگوار گزرتا ہے۔ آدمی لطف اٹھانا تو بھول گیا فقط کڑ کڑ کیے جاتا ہے۔ بھلا دیکھیے تو سہی کیسی ناشکری کا دور ہے۔
غیرممالک ہمارے یہاں کے موسموں کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں۔ بہتیرے تو گرمی کا مزا لینے اپنا گھر چھوڑ کر یہاں آتے ہیں اور گوا کے ساحل پر گرم ریت میں پڑے رہتے ہیں۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ ان کے بدن کی جلد گرمی اور ریت کی تپش سے جھلس جاتے ہیں۔ رنگ سفید سے سیاہ ہوجاتا ہے، مگر وہ اس کا برا نہیں مانتے ایک غیرملکی کو یہ کہتے سنا گیا کہ ہندوستانی لوگ عجیب ہیں، گرمی کے موسم میں سردی کے خواہاں رہتے ہیں۔ ایئرکنڈیشن لگا کر گھروں کو ٹھنڈا کرتے ہیں اور سردی کے موسم میں گرمی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ہیٹر اور گیزر لگا لگا کر ماحول کو گرماتے ہیں۔ برسات تو خیر ان کے لیے مصیبت ہی بن جاتی ہے۔ گھر سے باہر نکلنا ہی بند کردیتے ہیں اور بارش کے آنے پر بڑ بڑا کر شکایت کرتے ہیں۔ دلی والے اگر کہیں کونے کھدرے میں پڑے ہوںگے تو وہ اب بھی کم سے کم موسموں کا رونا نہیں روتے ہوںگے۔ یہ دوسری بات ہے کہ گھروں کی وضع قطع اور بازاروں کی بھیڑ بھاڑنے انہیں بھی باولا بنادیا ہے۔ روز بروز دلی کی آبادی بڑھنے سے ہر طرف اونچی اونچی عمارتیں بن گئی ہیں اور مخلوق اللہ معاف کرے چیونٹیوں کی طرح نکل پڑی ہے۔ جدھر جائیے آدم ہی آدم ہے۔ خدا سب کو سلامت رکھے اور اچھے دن دیکھنا نصیب کرے۔ آمین
دِلّی کی تعمیراور بربادی
دلی کی تعمیر کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ناصر نذیر فراق نے لکھا ہے کہ جب لال قلعہ اور جامع مسجد بن کر تیار ہوگئے تو شاہجہاں نے حکم دیا کہ امراء اور رؤساء کی حویلیاں شہر کے بیچوں بیچ اور کاریگر ، صنعت کاروں کے کوچے کنارے کنارے بسائے جائیں۔دلی گیٹ سے جٹواڑے، قصاب پورے، گھونسیوں کے محلے، کھٹیکوں کی بستی،کونڈے والان، نیاریان،رود گران، چابک سواران اور فراش خانے سے گزر کر آپ مسجد فتح پوری پہنچ جائیں گے۔چاندنی چوک میں جو گلیاں اور کوچے ہیں وہ نوابین، رؤساء ور جوہریوں سے آباد تھے۔جامع مسجد کے قریب کوچہ چیلان میں علماء اور صلحاء رہتے تھے۔بنگش کے کمرے کے پاس نواب مصطفیٰ شیفتہ کی حویلی، صدر الصدور کی حویلی ، نواب دوجانے کا مکان ، نواب عزیز آبادی کا پھاٹک، شیش محل، چاندنی محل سب اسی قرب و جوار میں واقع ہیں۔سیتا رام بازار اور بلبلی خانے میں بھی امیروں کی بارگاہیں تھیں۔ اب نہ وہ امیر رہے نہ ان کے مکانات، فقط نشان باقی ہیں جو اگلے وقتوں کا فسانہ زبانِ حال سے سنارہے ہیں۔ جب حویلیاں نہ رہیں تو یہ نشان بھی کب تک باقی رہیں گے۔ ابھی کچھ دن پہلے بُلڈوزر چلے تھے تو دلی والوں نے آس چھوڑ دی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ سارا شہر ایک لمبے چوڑے صحرا میں بدل جائے گا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے چند جیالوں کا ، جنہوں نے جان پر کھیل کر دلی کو بچا لیا مگر یہ بھی آخر کب تک بچائیں گے، جس شہر میں ہزاروں کی گنجائش تھی وہاں لاکھوں بسے ہوئے ہیں۔روز صبح سے شام تک آنے والوں کی بھرمار رہتی ہے۔ آدمی کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے دکھائی دیتے ہیں۔ بازاروں میں چلنا مشکل ہوگیا ہے۔گلیاں بازار جو کبھی اوراق مصّو ر تھے، اللہ معاف کرے۔ ڈلاؤ کی صورت ہوگئے ہیں۔دلی کے پرانے مکین دیکھ دیکھ کر ہولتے رہتے ہیں مگر جس طرح بنتی میں ہر شے ساتھ دیتی ہے اسی طرح بگڑتی میں زمین و آسمان دشمن ہوجاتے ہیں۔کوئی کتنا زور لگالے جو ہونا ہے وہ ہوکر رہتا ہے۔خدا اس شہر کے اگلے دن لو ٹادے۔دلی والوں کی باچھیں کھل جائیں گی۔
غدر کے زمانے میں ایک فقیر دلی کے گلی کوچوں میں لہک لہک کر صدا لگاتے تھے۔سات دلّی آٹھ با دلی، قلعہ وزیر آباد، اس زمانے میں تو لوگ اس کو مجذوب کی بڑ سمجھتے ہوں گے لیکن آج معلوم ہوا کہ جب سات دلّیاں بس کر اجڑ گئیں تو آبادی کا پھیلاؤ بادلی کی طرف بڑھا، اور اس سے آگے وہ زمانہ آیا جب وزیر آباد کے قلعہ تک دلی کی حدود پھیلتی چلی گئیں۔اب تو خدا رکھے یہ عالم ہے کہ دلی، یوپی اور ہریانہ سب ایک ہوگئے ہیں، اگلے دس برس میں لوگوں کا اندازہ ہے کہ دلی چالیس میل تک اور پھیل جائے گی۔لو بھائی آج تک تو دلی کی ایک ہی سَوت یعنی نئی دلی تھی اب اور کئی پیدا ہوں گی۔ہم دلی والے حسد کی آگ میں تو جلتے نہیں ،اللہ انہیں بھی پنپنا مبارک کرے۔ ہاں یہ دعا ضرور کرتے ہیں کہ دلی کا سہاگ برقرار رہے۔اس کی قسمت کے پھیر نکل جائیں اور اگلی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں ،دلی کیا تھی ، کیسی تھی ،کیوں مشہور ہوئی یہ تو آپ کو اسی وقت اندازہ ہوگا جب دلی والوں کی اقدار اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔سچ ہے شنیدہ کہ بود مانند دیدہ۔ابھی تو یہ ساری داستان الف لیلیٰ کا یک رنگین باب نظر آتی ہے۔خدا را غور سے سن لیجیے کل سنانے والوں کا بھی توڑا ہو جائے گا۔
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنئے گا۔ پڑھتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنئے گا۔دلی کی تعمیر کا افسانہ سنا ،اب دلی کی بربادی کا ذکر بھی سن لیجئے۔اب سے دور خدا وہ دن نہ دکھائے۔1947 کے وسط میں جب چھرے گھونپے جارہے تھے اور شام کے چھ بجے سے صبح کے چھ بجے تک کرفیو لگ رہا تھا۔ دلی کے دوچار من چلوں کو سوجھی کہ اس تان رس خان کی حویلی میں ایک جلسہ کیا جائے۔چاندنی محل سے ذرا آگے یہ حویلی ہے۔چنانچہ اس حویلی میں نامی گرامی گائک جمع کیے گئے۔ ہونہار جوانوں نے اپنے اپنے گھرانوں کے باج طبلے پرسنائے یا کسی نے قاعدہ کھولا۔ کسی نے ریلا پھینکا، کسی نے گت اورپرن سنائے،کسی نے چوپلی کا حساب پیش کیا۔ آخر میں استاد گامی خاں جوڑی لے کر بیٹھے۔گامی خاں کا رشتہ کئی پشت اوپر استاد مکھو خاں سے جا ملتا تھا۔یہ مکھو خاں وہ تھے جو خواجہ میر درد کی محفلوں میں پکھاوج اور طبلہ بجایا کرتے تھے۔ لال قلعے کے اکثر شہزادے ان کے شاگرد تھے۔اسی محفل میں یکتائے روزگار استاد بندو خاں سارنگی نواز بھی موجود تھے۔ انہوں نے اپنے لیے بانس کی ایک سارنگی بنائی تھی۔تار اور طربیں ملا کر استاد بولے آج میں آپ حضرات کو دیپک راگ سناؤں گا۔ استاد چاندخاں تڑپ کر بول اٹھے، نہیں بھائی صاحب! دیپک راگ نہ سنائیے کچھ اور بجا لیجیے۔بُندو خاں نے مسکرا کر کہا ۔چاند خاں ڈرو مت،دیپک سے آگ نہیں لگے گی۔ اب تو سن لو، آئندہ نہیں بجائیں گے۔یہ کہہ کر انہوں نے دیپک راگ شروع کردیا۔ سیدھا سادا راگ تھا، خان صاحب نے خوب جی بھر کر بجایا۔انہوں نے اپنی سارنگی رکھی تو صبح کی اذانیں ہونے لگیں۔ کرفیو کھلا اور صحبت شب برخاست ہوئی۔
دلی میں فسادات بڑھتے ہی چلے گئے۔ لوگ مارے جارہے تھے۔ گھر لُٹ رہے تھے۔ قرول باغ جہاں کبھی جامعہ ملیہ جیسا ادارہ تھا اور شہر کے معزز مسلمان رہا کرتے تھے، دیکھتے دیکھتے ختم ہوا۔ سبزی منڈی ختم ہوئی۔بڑے بڑے جیالوں نے فوج اور ملٹری کے آگے دم توڑدیا۔پھر پہاڑ گنج کا نمبر آیا۔ یہاں دلی کی سب سے مضبوط برادری پتھر پھوڑوں اور بندھانیوں کی آباد تھی۔لوگ سمجھتے تھے کہ یہ مورچہ کبھی نہیں ٹوٹے گا مگر افسوس یہاں سے بھی مسلمانوں کو نکل نکل کر بھاگنا پڑا۔ ہزاروں شہید ہوگئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ساری دلی میں بھیروں ناچ رہا تھا۔ کچھ لوگ جان بچا کر پاکستان چلے گئے۔ بندو خان بھی کراچی پہنچے اور لالو کھیت کے ویرانے میں پڑ رہے۔نہایت عسرت اور تنگ دستی میں آخری عمر بسر ہوئی۔چاند خاں صاحب دلی میں رہ گئے۔ سالہا سال بعد نذیر احمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی دلی آئے تو چاندخاں سے ملاقات ہوئی۔انہیں دلی کا وہ جلسہ یاد دلا گیا۔ چاند خاں رقیق القلب فقیر منش آدمی تھے، آبدیدہ ہوگئے۔بولے بھائی صاحب آپ نے دیکھ لی دیپک کی نحوست ، دلی کو لوکا لگ گیا۔ہم دلی میں ہیں، ہماری دلی کو فراق کی آگ لگی ہوئی ہے۔یہ آنسوئوں سے بھی نہیں بجھتی۔ایک ایک کو آنکھیں ڈھونڈھتی ہیں۔شاہد صاحب سوچتے رہے ،کیا واقعی 47 میں جو دلی بھسم ہوگئی تو بقول چاند خاں یہ راگ کی آگ میں جلی تھی یا یہ محض ایک سوئے اتفاق تھا۔
اس زمانے، 46 یا 47 میں جگت ٹاکیز پر فلم زینت چل رہی تھی۔فلم بھی ٹریجڈی تھی اور اس میں ایک نئی دلہن عین شادی کے دن بیوہ ہوگئی تھی،خیر وہ تو ایک کہانی تھی مگر اس فلم میں ایک گانا تھا ۔’’آندھیاں غم کی یوں چلیں باغ اجڑ کے رہ گیا‘‘۔بچے اگر کبھی اس گانے کو گنگناتے ہوئے بازار سے گزرتے تو دکاندار برا بھلا کہتے تھے۔ ڈانٹتے تھے،اتفاق یہ ہوا کہ اس کے کچھ عرصے بعد ہی بٹوارہ ہوا، فسادات ہوئے اور ہزاروں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ دیکھ لیا غم کی آندھیاں کیسی چلتی ہیں، اور گائو غم کے گانے۔ پھر تو یہ سلسلہ چل ہی پڑا۔ ایک گانا کسی فلم میں یہ آیا کہ ’’ایک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا‘‘ اور ملک کے بھی ٹکڑے ہوگئے۔
دلی میں بری بات منہ سے نکالنا کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔ گھنائونی چیزوں کا نام لینا بھی گوارانہ تھا۔جھاڑو کو ستھرائی، سانپ کو رسی، چھپکلی کو دیوار والی،بیت الخلا کو جا ضرور، زلزلہ کو ابن چین ہمارے بچپن تک کہا جاتا تھا۔یہ سب نفاستیں تھیںجن کے ساتھ دلی کے بچوں کی پرورش ہوتی تھی۔ مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے۔ ادب، احترام اور خصائل پسندیدہ تو بچپن ہی سے ان کی گھٹی میں پڑجاتے تھے۔ ماں باپ اور دیگر بزرگ رشتہ داروں کا تو ذکر ہی کیا ،بچے محلے کے بڑے بوڑھوں سے بھی اچھی باتیں سیکھتے تھے۔اخلاقی نکتے سمجھتے تھے۔کھیل کو د بھی ان کے ایسے تھے جن سے ان کی اخلاقی تربیت ہوتی تھی۔
حضور ، میرے زمانے کی دلی کے فسانے بہت طویل ہیں، سناتا چلا جائوں تو کبھی ختم نہ ہوں گے مگر رات تھوڑی ہے اورسوانگ بہت۔ مجھے تو دلی کی باتیں کرنے میں مزا آتا ہے۔آپ تھک گئے ہوں گے اس لیے اجازت چاہوں گا۔ باقی پھر کسی محفل میں سن لیجیے گا ۔ یار زندہ صحبت باقی۔
دلی کی تعمیر کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ناصر نذیر فراق نے لکھا ہے کہ جب لال قلعہ اور جامع مسجد بن کر تیار ہوگئے تو شاہجہاں نے حکم دیا کہ امراء اور رؤساء کی حویلیاں شہر کے بیچوں بیچ اور کاریگر ، صنعت کاروں کے کوچے کنارے کنارے بسائے جائیں۔دلی گیٹ سے جٹواڑے، قصاب پورے، گھونسیوں کے محلے، کھٹیکوں کی بستی،کونڈے والان، نیاریان،رود گران، چابک سواران اور فراش خانے سے گزر کر آپ مسجد فتح پوری پہنچ جائیں گے۔چاندنی چوک میں جو گلیاں اور کوچے ہیں وہ نوابین، رؤساء ور جوہریوں سے آباد تھے۔جامع مسجد کے قریب کوچہ چیلان میں علماء اور صلحاء رہتے تھے۔بنگش کے کمرے کے پاس نواب مصطفیٰ شیفتہ کی حویلی، صدر الصدور کی حویلی ، نواب دوجانے کا مکان ، نواب عزیز آبادی کا پھاٹک، شیش محل، چاندنی محل سب اسی قرب و جوار میں واقع ہیں۔سیتا رام بازار اور بلبلی خانے میں بھی امیروں کی بارگاہیں تھیں۔ اب نہ وہ امیر رہے نہ ان کے مکانات، فقط نشان باقی ہیں جو اگلے وقتوں کا فسانہ زبانِ حال سے سنارہے ہیں۔ جب حویلیاں نہ رہیں تو یہ نشان بھی کب تک باقی رہیں گے۔ ابھی کچھ دن پہلے بُلڈوزر چلے تھے تو دلی والوں نے آس چھوڑ دی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ سارا شہر ایک لمبے چوڑے صحرا میں بدل جائے گا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے چند جیالوں کا ، جنہوں نے جان پر کھیل کر دلی کو بچا لیا مگر یہ بھی آخر کب تک بچائیں گے، جس شہر میں ہزاروں کی گنجائش تھی وہاں لاکھوں بسے ہوئے ہیں۔روز صبح سے شام تک آنے والوں کی بھرمار رہتی ہے۔ آدمی کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے دکھائی دیتے ہیں۔ بازاروں میں چلنا مشکل ہوگیا ہے۔گلیاں بازار جو کبھی اوراق مصّو ر تھے، اللہ معاف کرے۔ ڈلاؤ کی صورت ہوگئے ہیں۔دلی کے پرانے مکین دیکھ دیکھ کر ہولتے رہتے ہیں مگر جس طرح بنتی میں ہر شے ساتھ دیتی ہے اسی طرح بگڑتی میں زمین و آسمان دشمن ہوجاتے ہیں۔کوئی کتنا زور لگالے جو ہونا ہے وہ ہوکر رہتا ہے۔خدا اس شہر کے اگلے دن لو ٹادے۔دلی والوں کی باچھیں کھل جائیں گی۔
غدر کے زمانے میں ایک فقیر دلی کے گلی کوچوں میں لہک لہک کر صدا لگاتے تھے۔سات دلّی آٹھ با دلی، قلعہ وزیر آباد، اس زمانے میں تو لوگ اس کو مجذوب کی بڑ سمجھتے ہوں گے لیکن آج معلوم ہوا کہ جب سات دلّیاں بس کر اجڑ گئیں تو آبادی کا پھیلاؤ بادلی کی طرف بڑھا، اور اس سے آگے وہ زمانہ آیا جب وزیر آباد کے قلعہ تک دلی کی حدود پھیلتی چلی گئیں۔اب تو خدا رکھے یہ عالم ہے کہ دلی، یوپی اور ہریانہ سب ایک ہوگئے ہیں، اگلے دس برس میں لوگوں کا اندازہ ہے کہ دلی چالیس میل تک اور پھیل جائے گی۔لو بھائی آج تک تو دلی کی ایک ہی سَوت یعنی نئی دلی تھی اب اور کئی پیدا ہوں گی۔ہم دلی والے حسد کی آگ میں تو جلتے نہیں ،اللہ انہیں بھی پنپنا مبارک کرے۔ ہاں یہ دعا ضرور کرتے ہیں کہ دلی کا سہاگ برقرار رہے۔اس کی قسمت کے پھیر نکل جائیں اور اگلی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں ،دلی کیا تھی ، کیسی تھی ،کیوں مشہور ہوئی یہ تو آپ کو اسی وقت اندازہ ہوگا جب دلی والوں کی اقدار اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔سچ ہے شنیدہ کہ بود مانند دیدہ۔ابھی تو یہ ساری داستان الف لیلیٰ کا یک رنگین باب نظر آتی ہے۔خدا را غور سے سن لیجیے کل سنانے والوں کا بھی توڑا ہو جائے گا۔
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنئے گا۔ پڑھتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنئے گا۔دلی کی تعمیر کا افسانہ سنا ،اب دلی کی بربادی کا ذکر بھی سن لیجئے۔اب سے دور خدا وہ دن نہ دکھائے۔1947 کے وسط میں جب چھرے گھونپے جارہے تھے اور شام کے چھ بجے سے صبح کے چھ بجے تک کرفیو لگ رہا تھا۔ دلی کے دوچار من چلوں کو سوجھی کہ اس تان رس خان کی حویلی میں ایک جلسہ کیا جائے۔چاندنی محل سے ذرا آگے یہ حویلی ہے۔چنانچہ اس حویلی میں نامی گرامی گائک جمع کیے گئے۔ ہونہار جوانوں نے اپنے اپنے گھرانوں کے باج طبلے پرسنائے یا کسی نے قاعدہ کھولا۔ کسی نے ریلا پھینکا، کسی نے گت اورپرن سنائے،کسی نے چوپلی کا حساب پیش کیا۔ آخر میں استاد گامی خاں جوڑی لے کر بیٹھے۔گامی خاں کا رشتہ کئی پشت اوپر استاد مکھو خاں سے جا ملتا تھا۔یہ مکھو خاں وہ تھے جو خواجہ میر درد کی محفلوں میں پکھاوج اور طبلہ بجایا کرتے تھے۔ لال قلعے کے اکثر شہزادے ان کے شاگرد تھے۔اسی محفل میں یکتائے روزگار استاد بندو خاں سارنگی نواز بھی موجود تھے۔ انہوں نے اپنے لیے بانس کی ایک سارنگی بنائی تھی۔تار اور طربیں ملا کر استاد بولے آج میں آپ حضرات کو دیپک راگ سناؤں گا۔ استاد چاندخاں تڑپ کر بول اٹھے، نہیں بھائی صاحب! دیپک راگ نہ سنائیے کچھ اور بجا لیجیے۔بُندو خاں نے مسکرا کر کہا ۔چاند خاں ڈرو مت،دیپک سے آگ نہیں لگے گی۔ اب تو سن لو، آئندہ نہیں بجائیں گے۔یہ کہہ کر انہوں نے دیپک راگ شروع کردیا۔ سیدھا سادا راگ تھا، خان صاحب نے خوب جی بھر کر بجایا۔انہوں نے اپنی سارنگی رکھی تو صبح کی اذانیں ہونے لگیں۔ کرفیو کھلا اور صحبت شب برخاست ہوئی۔
دلی میں فسادات بڑھتے ہی چلے گئے۔ لوگ مارے جارہے تھے۔ گھر لُٹ رہے تھے۔ قرول باغ جہاں کبھی جامعہ ملیہ جیسا ادارہ تھا اور شہر کے معزز مسلمان رہا کرتے تھے، دیکھتے دیکھتے ختم ہوا۔ سبزی منڈی ختم ہوئی۔بڑے بڑے جیالوں نے فوج اور ملٹری کے آگے دم توڑدیا۔پھر پہاڑ گنج کا نمبر آیا۔ یہاں دلی کی سب سے مضبوط برادری پتھر پھوڑوں اور بندھانیوں کی آباد تھی۔لوگ سمجھتے تھے کہ یہ مورچہ کبھی نہیں ٹوٹے گا مگر افسوس یہاں سے بھی مسلمانوں کو نکل نکل کر بھاگنا پڑا۔ ہزاروں شہید ہوگئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ساری دلی میں بھیروں ناچ رہا تھا۔ کچھ لوگ جان بچا کر پاکستان چلے گئے۔ بندو خان بھی کراچی پہنچے اور لالو کھیت کے ویرانے میں پڑ رہے۔نہایت عسرت اور تنگ دستی میں آخری عمر بسر ہوئی۔چاند خاں صاحب دلی میں رہ گئے۔ سالہا سال بعد نذیر احمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی دلی آئے تو چاندخاں سے ملاقات ہوئی۔انہیں دلی کا وہ جلسہ یاد دلا گیا۔ چاند خاں رقیق القلب فقیر منش آدمی تھے، آبدیدہ ہوگئے۔بولے بھائی صاحب آپ نے دیکھ لی دیپک کی نحوست ، دلی کو لوکا لگ گیا۔ہم دلی میں ہیں، ہماری دلی کو فراق کی آگ لگی ہوئی ہے۔یہ آنسوئوں سے بھی نہیں بجھتی۔ایک ایک کو آنکھیں ڈھونڈھتی ہیں۔شاہد صاحب سوچتے رہے ،کیا واقعی 47 میں جو دلی بھسم ہوگئی تو بقول چاند خاں یہ راگ کی آگ میں جلی تھی یا یہ محض ایک سوئے اتفاق تھا۔
اس زمانے، 46 یا 47 میں جگت ٹاکیز پر فلم زینت چل رہی تھی۔فلم بھی ٹریجڈی تھی اور اس میں ایک نئی دلہن عین شادی کے دن بیوہ ہوگئی تھی،خیر وہ تو ایک کہانی تھی مگر اس فلم میں ایک گانا تھا ۔’’آندھیاں غم کی یوں چلیں باغ اجڑ کے رہ گیا‘‘۔بچے اگر کبھی اس گانے کو گنگناتے ہوئے بازار سے گزرتے تو دکاندار برا بھلا کہتے تھے۔ ڈانٹتے تھے،اتفاق یہ ہوا کہ اس کے کچھ عرصے بعد ہی بٹوارہ ہوا، فسادات ہوئے اور ہزاروں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ دیکھ لیا غم کی آندھیاں کیسی چلتی ہیں، اور گائو غم کے گانے۔ پھر تو یہ سلسلہ چل ہی پڑا۔ ایک گانا کسی فلم میں یہ آیا کہ ’’ایک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا‘‘ اور ملک کے بھی ٹکڑے ہوگئے۔
دلی میں بری بات منہ سے نکالنا کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔ گھنائونی چیزوں کا نام لینا بھی گوارانہ تھا۔جھاڑو کو ستھرائی، سانپ کو رسی، چھپکلی کو دیوار والی،بیت الخلا کو جا ضرور، زلزلہ کو ابن چین ہمارے بچپن تک کہا جاتا تھا۔یہ سب نفاستیں تھیںجن کے ساتھ دلی کے بچوں کی پرورش ہوتی تھی۔ مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے۔ ادب، احترام اور خصائل پسندیدہ تو بچپن ہی سے ان کی گھٹی میں پڑجاتے تھے۔ ماں باپ اور دیگر بزرگ رشتہ داروں کا تو ذکر ہی کیا ،بچے محلے کے بڑے بوڑھوں سے بھی اچھی باتیں سیکھتے تھے۔اخلاقی نکتے سمجھتے تھے۔کھیل کو د بھی ان کے ایسے تھے جن سے ان کی اخلاقی تربیت ہوتی تھی۔
حضور ، میرے زمانے کی دلی کے فسانے بہت طویل ہیں، سناتا چلا جائوں تو کبھی ختم نہ ہوں گے مگر رات تھوڑی ہے اورسوانگ بہت۔ مجھے تو دلی کی باتیں کرنے میں مزا آتا ہے۔آپ تھک گئے ہوں گے اس لیے اجازت چاہوں گا۔ باقی پھر کسی محفل میں سن لیجیے گا ۔ یار زندہ صحبت باقی۔
دلی کی زبان
زبان کا کہناہے کہ سیکھنے کا سلسلہ ماں کے پیٹ سے شروع ہوجاتا ہے۔جینزکے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ جو زبان ہم بولتے ہیں اس کی ابتدائی مشق پیدا ہونے سے پہلے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے کہاجاتا ہے کہ انسان اپنی مادری زبان میں جو تحصیل علم کرسکتاہے وہ دوسری زبان میں نہیں کرسکتا۔تعلیم کےماہرین نے ہمیشہ مادری زبان کی تعلیم پر زور دیا ہے۔ مختلف جگہوں کی زبان اور لب ولہجے میں جو فرق پایاجاتا ہے وہ بھی شاید اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم سب کی پیدائش کے مقامات بھی جداجدا ہیں۔ بعد میں ماحول اور معاشرے کے اثرات بھی زبان پر پڑتے ہیں اور زبان کے فروغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ عوام تک ضرور رسائی حاصل کرے۔ جو زبانیں محض خواص کے دائرۂ عمل میں رہتی ہیں وہ فنا ہوجاتی ہیں۔ اردو نے جو مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کے زیرسایہ پلی بڑھی۔ دلی میں یہ صورت مزید تقویت حاصل کرگئی کیونکہ یہاں قلعہ معلیٰ کی زبان جامع مسجد کی سیڑھیوں سے ہوتی ہوئی گلی محلوں تک پہنچی اوراس نے عوام الناس میں فروغ پایا۔ اس زبان کو فروغ دینے میں ارزل واسفل طبقے کا بھی بڑ ا معنی خیز کردار رہاہے۔ دلی کے کرخنداروں کا ذکر پہلے کیاجاچکاہے انہوں نے اپنی ضرورت کے تحت زبان کو گھس پیٹ کراپنے لب ولہجے میں رچا بچا لیا تھا۔ اب ذرا دیکھئے کہ دلی کی بیگمات سے زبان کس طرح مہترانیوں تک پہنچی اوران کے لب و لہجے میں نکھار اور کھنک پیرا کرتی رہی۔ دلی کے بڑے بڑے زبان دانوں نے روزمرہ اورمحاورات مہترانیوں کی گفتگو سے سیکھے تھے۔ خواجہ حسن نظامی میرناصرعلی صلائے عام والے، راشدالخیری، قاری سرفراز حسین، ڈپٹی نذیراحمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی وغیرہ نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ اس سلسلے کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے جسے سیداحمددہلوی نے اپنے مضامین میں نقل کیا ہے۔
ڈاکٹرنیلن جس کی انگریزی اردو ڈکشنری مشہور ہے، اس گھمنڈمیں تھے کہ انہیں اہل زبان سے زیادہ اردو آگئی ہے۔ سیداحمددہلوی فرہنگ آصفیہ والوں نے صاحب کو بتایا کہ دلی شرفا کاتو ذکر ہی کیا ہے۔ آپ چھوٹی امت جتنی بھی اردو نہیں جانتے۔ نیلن صاحب ان کی یہ بات سن کر سرخ ہوگئے بولے آپ میرا امتحان لیجئے۔اتنےمیں ایک مہترانی اپنا ٹھیکرا اٹھائے سامنےسے گزری، سیدصاحب نے کہا ذرا اسی سے بات کرلیجئے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیاہے۔ صاحب نے کہابلاؤا سے۔ سیدصاحب نے مہترانی کو آواز دی۔ اے بواذرا یہاں آنا، صاحب تم سے کچھ بات کرنی چاہتے ہیں۔ مہترانی نے آکر کہا’فرمائیے کیا بات کرنی چاہتے ہیں۔‘ صاحب نے کہا ’تم ہم سے کچھ پوچھو۔ وہ سٹپٹائی کہ یہ گورا آخر چاہتاکیا ہے۔ کہیں سٹھیا تونہیں گیا ہوا۔ سیدصاحب نے کہا تم ان سے کسی محاورے کے معنی پوچھو۔ مہترانی نے کہا’اچھا تو میں اس ٹوکرے کو کیک مرڈلاؤ پر ڈال آؤں پھر پوچھوں گی صاحب بغلیں جھانکتے رہ جائیں گے۔ ڈاکٹر نیلن کے کان کھڑے ہوئے کہ مہترانی ایک ہی فقرے میں دوباتیں ایسی کہہ گئی جو مجھے معلوم نہیں ہیں۔ مولوی صاحب سے پوچھا کیوں مولوی صاحب ڈلاؤ کسے کہتے ہیں۔ اور بغلیں جھانکنا کیا ہوتا ہے۔ سیدصاحب نے کہا تیل دیکھئے تیل کی دھار دیکھئے ابھی دیکھتے ہیں وہ واپس آکر کیا پوچھتی ہے۔ اتنے میں مہترانی واپس آگئی بولی ہاں صاحب بہادربتاؤ آگن کے بچے کھجوروں میں کا کیا مطلب ہے۔ صاحب واقعی بغلیں جھانکنے لگے مہترانی نے کہا بس ہوگئی ترکی تمام۔ پھٹے سے منہ صاحب کا سارا علم دھرا رہ گیا۔ اپنا سامنہ لے کر رہ گئے۔ مہترانیاں جب گھر میں آتیں تو سلام دعا کر پھسکڑا مار کر صحن میں بیٹھ جاتی تھیں۔ اے بیگم کچھ سنا تم نے پیش کار صاحب کی لڑکی کی بات ٹوٹ گئی۔ لوبیوی غضب خدا کا کیا زمانہ آگیا۔ ٹھیکرے کی مانگ تھی ون کی اور وہ تحصیلدار صاحب ہیں اونچی ڈیوڑھی والے۔ ان کے ہاں جو چھوکری ملازم ہے اس نے تحصیلدارنی کی انگھوٹھی چرالی۔ جب چار چوٹ کی مار پڑی تو قبولی اورنیفے میں سے انگوٹھی نکال کردی مردار نے۔ کلوڈھیلے کے ہاں کل وہ بھوگ پڑا کہ الٰہی تو بہ اے کوئی بات بھی ہوگھر والی نے کل یہ کہہ دیا کہ خیر سے لڑکی سیانی ہونے کو آئی اس کی کچھ فکر کرو بس بیگم وہ تو نہ جانے کب سے بھرا بیٹھا تھا۔ ون نے چیخ چیخ کر پورا گھر سرپہ اٹھالیا۔ مردوئے کی مت اوندھی ہوگئی ہے۔ اے نہ ہوئی میں کیا بیاہ شادیاں نہیں ہوتیں۔ اے ہے کسی پھٹکی پڑگئی میری یاد پر بیگم کچھ اور بھی سنا دہ جو کینی باغ میں چاندنی چوک کے رخ گھنٹہ گھر کے سامنے ملکہ ٹوریا کا بت ہے ناستیا ناس پیٹا رات کو کسی نے وس کی ناک کاٹ کر گلے میں جوتیوں کاہار ڈال دیا۔ لنگڑا کو توال اور کنستر بھی دیکھنے آیا تھا۔ غرض جی مہترانی سارا کام تو کمیریوں سے کراتی تھیں اور خود بیگم سے بیٹھی باتیں مٹھاراکرتی تھیں۔ ان کی زبان میں بیگموں کی زبان کی مٹھاس اور روانی آگئ تھی۔
دلی والوں نے خواص اور عوام کی زبان کو کبھی الگ الگ نہیں رکھا۔ میرتقی میؔر نے فرمایا تھا کہ میری زبان کی سند جامع مسجد کی سیڑھیوں سے لیجئے۔ ذوقؔ کی زبان بھی دلی کے گلی کوچوں کی زبان تھی۔ پھر داغ ؔ نے تودلی کے محاوروں سے زبان کے وہ جادو دکھائے جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ میرتقی میر کا یہ شعر تو اہل دلی نے باربارسنا ہوگا
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے
:اور داغ کا یہ دعویٰ تو ضرب المثل بن گیا تھا:
اردو جسے کہتے ہیں ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
دلی والوں کازبان پر ناز کرنا اس حدتک تو درست ہے کہ ان کا تعلق زبان کے منبع ومخرج سے ہے لیکن صاحب یہ کچھ ان کااپنا حاصل کردہ نہیں ہے۔ خدا نے آپ کو یہاں پیدا کردیا کسی دوسرے کو کسی اور مقام پر پیدا کردیا پھر بتائیے آپ نے اس ضمن میں کیا کوشش کی۔ خدا کی طرف سے عنایت کردہ انعام پر آپ کا ناز بے جاکر نادرست نہیں۔ دوسروں کو چاہئے کہ وہ اسے نزاعی مسئلہ نہ بنائیں اردو زبان کی صحیح نہج جاننے اوراس پر روزمرہ اور محاورے کا لطف اٹھانے کے لئے دلی سے رجوع کریں باقی علم و ادب میں اگر وہ فضیلت رکھتے ہیں تو دلی کے لوگوں کو ان کی برتری کااعتراف کرنا چاہئے۔
ایک زمانے سے یہ سنتا آیاہوں کہ بتائیے کہ دلی والا کون ہے۔ دلی کی تین چوتھائی آبادی تو باہر والوں کی ہے جن لوگوں کانام دلی والے سند زبان کی روسے لیتے آتے ہیں۔ وہ بھی کسی غیردیار سے یہاں آئے تھے۔ تاریخ کی اس حقیقت کو جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا لہٰذا کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ جو لوگ عذر کے پہلے سے دلی میں رہتے ہیں وہ دلی والے ہیں کسی نے کوئی اور صفت تلاش کرلی۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ دلی ایک بین الاقوامی شہر کادرجہ رکھتاتھا یہاں جگہ جگہ سے لوگ آتے رہے۔ دنیا بھر کے لوگوں سے مل کر یہاں کی تہذیب اور ثقافت نے فروغ پایا۔ کثرت میں وحدت کانمود ہوا۔ ادب آداب طورطریقے راہ سم کی بنیاد پڑی جو لوگ آج بھی اس روایت کا احترام کرتے ہیں اور تہذیب کی رسی کو دانتوں سے پکڑے ہوئے ہیں وہ دلی والے ہیں ورنہ ان پروہی مثل صادق آتی ہے کہ دلی میں رہے اور بھاڑ جھونکا۔ خیرصاحب مجھے تو دلی کے اینٹ روڑے خاک اور مٹی سب عزیز ہے۔ جو اس شہر میں آکر بسا وہ دلی والاہوگیا۔ خداکرے اب وہ دلی کے عادت اطوار بھی اپنالے۔ اسی لئے باربار دلی کی داستان سناتاہوں۔ گاہے گاہے بازخواں ایں قصۂ پارینہ را۔
دلی کی عورتیں
مجالس عزا اور محفل میلاد، عورتوں کی سماجی اور تہذیبی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ دلی میں یہ تقریبات بہت دھوم دھام سے منائی جاتی تھیں۔ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ دلی میں عورتوں کے لیے گھر سے باہر کی زندگی بالکل نہیں تھی، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پنجرے کے پنچھی کی طرح جیتی تھیں۔ اکثر ایسے میلے ٹھیلے اور عرس ہوتے تھے جن میں عورتیں بھی گھر سے سب افراد کے ساتھ شریک بزم رہتی تھیں۔ اعلیٰ خاندان کی عورتیں رتھ، یکے اور تانگے میں پورے اہتمام کے ساتھ سفر کرتی تھیں اور ان کے ٹھہرنے کا بھی باقاعدہ انتظام کیا جاتا تھا۔ غریب غرباء کی عورتیں شاہی عمارتوں، آستانوں اور تاریخی مہمان خانوں میں بڑے احترام سے ٹھہرائی جاتی تھیں، اگر وہ پردہ کرتی تھیں تو ان کے لیے علیٰحدہ کمرے دالان کا انتظام کیا جاتا تھا، اگر بے پردہ ہوتی تھیں تب بھی ان کا کونا ٹھکانا الگ بنایا جاتا تھا۔ قوالیوں، نعتوں اور حمد و ثنا پڑھنے میں بھی ان کا حصہ ہوتا تھا۔ غرض یہ کہ دل بہلانے کا پورا پورا سامان تھا۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ وہ دھول دھپا جو آج کل کا مزاج بن گیا ہے، یہ محفلیں اس سے پاک ہوتی تھیں۔ شاہی زمانے سے کچھ مینابازار بھی قلعے میں اور قلعے کے باہر عورتوں کے لیے لگا کرتے تھے، ان بازاروں میں بیٹی بٹار بغیر کسی روک ٹوک کے جاتی تھیں، سہیلیوں، بھنڈیلیوں سے ملتی تھیں، ہنسی مذاق اور چہلیں کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان میں کبھی کبھی مخصوص دوستیاں بھی ہوتی تھیں۔ دوپٹہ بدل بہنیں، انگوٹھی بدل بہنیں آپس میں مرد دوستوں کی طرح ایک دوسرے سے کھل کے ملتیں اور ایک دوسرے کی راز دار ہوتی تھیں، ان پر باہمی رشتوں کے بارے میں بہت کچھ باتیں ہیں جو کوئی پرانی عورت ہی بتاسکتی ہے۔ جہاں تک محافل میلاد کا تعلق ہے، وہ گندے نالے، فراش خانے، مٹیامحل اور کوچہ چیلان میں کثرت سے ہوئی تھیں۔ شریک ہونے والی عورتیں باقاعدہ ٹھسے کے ساتھ عمدہ لباس زیب تن کر کے گہنے پاتے پہن کر آتی تھیں تاکہ ان کی سماجی حیثیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکے۔ عالیشان حویلیوں کے دالان، آنگن، بارہ دریاں، سہہ دریاں، صحنچیاں، ڈیوڑھیاں آنے والیوں سے اور ان کے بچوں سے بھرجاتی تھیں۔ محرم کے مہینے میں امام باڑے سجائے جاتے تھے، چاندی سونے، کارچوبی اور لچکے ٹھپے کے مخملی علم، آئینہ خانے میں لگی براق، تعزیہ داری، طرح طرح کے مرصع قدآور تعزیے ان کے ساتھ سوز خوانی، مرثیہ خوانی، مجالس کے بعد تبرک کی تقسیم دس دن تک محرم کی چہل پہل، برسات میں جھولوں کا ڈالنا، گیت گائے جانا، پکوان تلنا اور مل جل کے برسات کی بہاروں سے لطف اندوز ہونا یہ سب اس زمانے کی رنگ رلیاں تھیں، جن میں عورتیں اپنا دل بہلانے کا سامان کیا کرتی تھیں، مختصر یہ کہ ہر طرح کے عیش تھے، قید و بند نہ تھی۔
دلی کی عورتوں کا ٹھسا باہر والوں کی بیگموں سے زیادہ تھا۔ ناک چوٹی گرفتار یہ عورتیں اپنے آگے کسی کو گردانتی نہیںتھیں۔ باہر والوں کے لب و لہجے، گفتگو، رہن سہن، رسم و رواج پر ایسی پھبتیاں کستی تھیں کہ وہ سنتے تو تلملا اٹھتے تھے۔ شہر کے باہر رشتہ ناطے کرنے کا رواج ہی نہیں تھا، جو کسی کا لحاظ کیا جاتا، مثل مشہور تھی کہ دلی کی بیٹی متھرا کی گائے کرم پھوٹے تو باہر جائے، اسی لیے معاشرے میں ایک خودپسندی پیدا ہوگئی تھی۔ دلی والیاں اپنے جوبن میں تلتی رہتی تھیں۔ محفلوں میں ان کے نخرے نہیں لیے جاتے تھے۔ لباس ایسا پہنیں کہ دیکھنے والا دیکھتا رہ جائے، زربفت، کمخواب سے کم تو بات ہی نہیں کرتی تھیں، تہہ پوشیاں ایسی کہ ان کے پائینچے خادمہ اٹھائے چلا کرتی تھیں، گہنے پاتے سے درست گوندنی کی طرح لدی ہوئی میاں کی آدھی کمائی تو پان کھا کے اڑا دیتی تھیں، اس آن بان کے باوجود غیرت کا یہ عالم تھا کہ اگر کبھی برا وقت پڑتا تو منہ سے اف نہ نکلتی تھی۔ تنگی ترشی میں بھی اپنی آن بان کو برقرار رکھا۔ دو دو دن کڑاکے کے فاقے سے گزار دئے اور انگیٹھی جلا اس پر پتیلی میں پانی چڑھا دیا تاکہ محلے والوں کو پتہ نہ چلے کہ آج ان کے یہاں فاقہ ہے۔ ہاتھ ان کے ہنر آشنا تھے۔ برے بھلے وقت میں زردوزی، تارکشی، کامدانی، کیکری کٹاڑ کر کے خود بھی گزر کرتیں اور شوہر کا بھی ہاتھ بٹاتی تھیں، جچ سلیقہ ایسا کہ سوئی کے ناکے میں سے ہاتھی گزار دیں۔ اتنی سی ہلدی سارے گھر میں مل دی، جس گھر جاتیں اسے جنت بنادیتی تھیں، کھانے پکانے سینے پرونے اور دیگر امور خانہ داری میں طاق دسوں انگلیاں دسوں چراغ۔
دلی کی طوائفوں کا ذکر بھی کچھ بے جا نہ ہوگا۔ نئی تانتی اب سے پچاس سال پہلے کی طوائفوں کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ یہ طوائفیں پیشہ نہیں کرتی تھیں۔ ان کے اونچے اونچے شاندار کوٹھے تھے۔ ان کوٹھوں میں گانے بجانے کی محفلیں جماتی تھیں۔ رئیس لوگ جنہیں اللہ نے مال و دولت سے نوازا تھا، ان کے کوٹھوں پر جا کر آداب محفل سیکھا کرتے تھے۔ پڑھی لکھی مجلسی آداب سے پوری طرح واقف جب ہی تو بڑے لوگ اپنی اولاد کو بھی درس آداب کے لیے ان کے پاس بھیجتے تھے، کیا مجال کہ بدتمیزی کا کوئی واقعہ درپیش آئے۔ یہ طوائفیں اور ان کے ٹھکانے تہذیب کے ادارے سمجھے جاتے تھے، یہاں تمیز تہذیب شائستگی سکھائی جاتی تھی۔ یہ سب اس زمانے کی باتیں ہیں، جب چاوڑی آباد تھی، سنا ہے کہ دلی کی دو مشہور طوائفوں نے نواب جھجھر کی شناسائی کے لیے کی گئی پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ حضور میرے اصطبل کا خرچہ بھی نہیں اٹھاسکتے۔ وہ دونوں شام کے وقت سات گھوڑوں کی بگھی میں بیٹھ کر مٹرگشت کو نکلتی تھیں، بٹوارے کے ہنگامے تک یہاں موتی جان اور نوشابہ جان موجود تھیں، لیکن یہ ان کا بڑھاپا تھا، نہایت صاف ستھرے مکان میں جامع مسجد کے قریب رہائش پذیر تھیں۔ بیگماتی زبان بولتی تھیں، نوشابہ جان شاہی گایک استاد تان رس خان کے بیٹے امراؤ خان کی شاگرد تھیں۔ ان سے پہلے گانے والیوں میں امیر جان، شمشاد بائی، مجیدن بائی اور نواب پتلی اونچی گانے والیاں تھیں۔ طوائفوں کی رنگین محفلوں اور گائیکی کا ذکر گھنٹوں کیا جاسکتا ہے، مگر مناسب نہیں کہ اس قصے کو طول دیا جائے، بچے پڑھیںگے تو سوچیںگے کہ بڑھاپے میں بھڑ بھس سوجھی ہے، انہیں کیا معلوم کہ دلی والوں نے اس شوق کو بھی کس پاکیزگی اور تقوے طہارت سے نبھایا ہے، مختصر یہ ہے کہ طوائفوں کے جاہ و حشمت اور مرتبے کا اندازہ اس امر سے لگا لیجیے کہ دلی کے کئی سربرآوردہ سیاست داں اور برگزیدہ رئیس طوائف زادے تھے۔ا ن حضرات نے برسوں دلی کی سماجی زندگی میں ہماری آپ کی نمائندگی کی ہے۔ مرتے دم تک لوگوں کی آنکھ کا تارا بنے رہے۔ خدا ان کے مدارج بلند کرے اور کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے۔ لیجیے یہ قصہ یہاں ختم کرتا ہوں انشاء اللہ آئندہ دلی کی سماجی زندگی کے کسی اور پہلو پر روشنی ڈالی جائے گی۔ یار زندہ صحبت باقی۔
مجالس عزا اور محفل میلاد، عورتوں کی سماجی اور تہذیبی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ دلی میں یہ تقریبات بہت دھوم دھام سے منائی جاتی تھیں۔ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ دلی میں عورتوں کے لیے گھر سے باہر کی زندگی بالکل نہیں تھی، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پنجرے کے پنچھی کی طرح جیتی تھیں۔ اکثر ایسے میلے ٹھیلے اور عرس ہوتے تھے جن میں عورتیں بھی گھر سے سب افراد کے ساتھ شریک بزم رہتی تھیں۔ اعلیٰ خاندان کی عورتیں رتھ، یکے اور تانگے میں پورے اہتمام کے ساتھ سفر کرتی تھیں اور ان کے ٹھہرنے کا بھی باقاعدہ انتظام کیا جاتا تھا۔ غریب غرباء کی عورتیں شاہی عمارتوں، آستانوں اور تاریخی مہمان خانوں میں بڑے احترام سے ٹھہرائی جاتی تھیں، اگر وہ پردہ کرتی تھیں تو ان کے لیے علیٰحدہ کمرے دالان کا انتظام کیا جاتا تھا، اگر بے پردہ ہوتی تھیں تب بھی ان کا کونا ٹھکانا الگ بنایا جاتا تھا۔ قوالیوں، نعتوں اور حمد و ثنا پڑھنے میں بھی ان کا حصہ ہوتا تھا۔ غرض یہ کہ دل بہلانے کا پورا پورا سامان تھا۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ وہ دھول دھپا جو آج کل کا مزاج بن گیا ہے، یہ محفلیں اس سے پاک ہوتی تھیں۔ شاہی زمانے سے کچھ مینابازار بھی قلعے میں اور قلعے کے باہر عورتوں کے لیے لگا کرتے تھے، ان بازاروں میں بیٹی بٹار بغیر کسی روک ٹوک کے جاتی تھیں، سہیلیوں، بھنڈیلیوں سے ملتی تھیں، ہنسی مذاق اور چہلیں کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان میں کبھی کبھی مخصوص دوستیاں بھی ہوتی تھیں۔ دوپٹہ بدل بہنیں، انگوٹھی بدل بہنیں آپس میں مرد دوستوں کی طرح ایک دوسرے سے کھل کے ملتیں اور ایک دوسرے کی راز دار ہوتی تھیں، ان پر باہمی رشتوں کے بارے میں بہت کچھ باتیں ہیں جو کوئی پرانی عورت ہی بتاسکتی ہے۔ جہاں تک محافل میلاد کا تعلق ہے، وہ گندے نالے، فراش خانے، مٹیامحل اور کوچہ چیلان میں کثرت سے ہوئی تھیں۔ شریک ہونے والی عورتیں باقاعدہ ٹھسے کے ساتھ عمدہ لباس زیب تن کر کے گہنے پاتے پہن کر آتی تھیں تاکہ ان کی سماجی حیثیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکے۔ عالیشان حویلیوں کے دالان، آنگن، بارہ دریاں، سہہ دریاں، صحنچیاں، ڈیوڑھیاں آنے والیوں سے اور ان کے بچوں سے بھرجاتی تھیں۔ محرم کے مہینے میں امام باڑے سجائے جاتے تھے، چاندی سونے، کارچوبی اور لچکے ٹھپے کے مخملی علم، آئینہ خانے میں لگی براق، تعزیہ داری، طرح طرح کے مرصع قدآور تعزیے ان کے ساتھ سوز خوانی، مرثیہ خوانی، مجالس کے بعد تبرک کی تقسیم دس دن تک محرم کی چہل پہل، برسات میں جھولوں کا ڈالنا، گیت گائے جانا، پکوان تلنا اور مل جل کے برسات کی بہاروں سے لطف اندوز ہونا یہ سب اس زمانے کی رنگ رلیاں تھیں، جن میں عورتیں اپنا دل بہلانے کا سامان کیا کرتی تھیں، مختصر یہ کہ ہر طرح کے عیش تھے، قید و بند نہ تھی۔
دلی کی عورتوں کا ٹھسا باہر والوں کی بیگموں سے زیادہ تھا۔ ناک چوٹی گرفتار یہ عورتیں اپنے آگے کسی کو گردانتی نہیںتھیں۔ باہر والوں کے لب و لہجے، گفتگو، رہن سہن، رسم و رواج پر ایسی پھبتیاں کستی تھیں کہ وہ سنتے تو تلملا اٹھتے تھے۔ شہر کے باہر رشتہ ناطے کرنے کا رواج ہی نہیں تھا، جو کسی کا لحاظ کیا جاتا، مثل مشہور تھی کہ دلی کی بیٹی متھرا کی گائے کرم پھوٹے تو باہر جائے، اسی لیے معاشرے میں ایک خودپسندی پیدا ہوگئی تھی۔ دلی والیاں اپنے جوبن میں تلتی رہتی تھیں۔ محفلوں میں ان کے نخرے نہیں لیے جاتے تھے۔ لباس ایسا پہنیں کہ دیکھنے والا دیکھتا رہ جائے، زربفت، کمخواب سے کم تو بات ہی نہیں کرتی تھیں، تہہ پوشیاں ایسی کہ ان کے پائینچے خادمہ اٹھائے چلا کرتی تھیں، گہنے پاتے سے درست گوندنی کی طرح لدی ہوئی میاں کی آدھی کمائی تو پان کھا کے اڑا دیتی تھیں، اس آن بان کے باوجود غیرت کا یہ عالم تھا کہ اگر کبھی برا وقت پڑتا تو منہ سے اف نہ نکلتی تھی۔ تنگی ترشی میں بھی اپنی آن بان کو برقرار رکھا۔ دو دو دن کڑاکے کے فاقے سے گزار دئے اور انگیٹھی جلا اس پر پتیلی میں پانی چڑھا دیا تاکہ محلے والوں کو پتہ نہ چلے کہ آج ان کے یہاں فاقہ ہے۔ ہاتھ ان کے ہنر آشنا تھے۔ برے بھلے وقت میں زردوزی، تارکشی، کامدانی، کیکری کٹاڑ کر کے خود بھی گزر کرتیں اور شوہر کا بھی ہاتھ بٹاتی تھیں، جچ سلیقہ ایسا کہ سوئی کے ناکے میں سے ہاتھی گزار دیں۔ اتنی سی ہلدی سارے گھر میں مل دی، جس گھر جاتیں اسے جنت بنادیتی تھیں، کھانے پکانے سینے پرونے اور دیگر امور خانہ داری میں طاق دسوں انگلیاں دسوں چراغ۔
دلی کی طوائفوں کا ذکر بھی کچھ بے جا نہ ہوگا۔ نئی تانتی اب سے پچاس سال پہلے کی طوائفوں کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ یہ طوائفیں پیشہ نہیں کرتی تھیں۔ ان کے اونچے اونچے شاندار کوٹھے تھے۔ ان کوٹھوں میں گانے بجانے کی محفلیں جماتی تھیں۔ رئیس لوگ جنہیں اللہ نے مال و دولت سے نوازا تھا، ان کے کوٹھوں پر جا کر آداب محفل سیکھا کرتے تھے۔ پڑھی لکھی مجلسی آداب سے پوری طرح واقف جب ہی تو بڑے لوگ اپنی اولاد کو بھی درس آداب کے لیے ان کے پاس بھیجتے تھے، کیا مجال کہ بدتمیزی کا کوئی واقعہ درپیش آئے۔ یہ طوائفیں اور ان کے ٹھکانے تہذیب کے ادارے سمجھے جاتے تھے، یہاں تمیز تہذیب شائستگی سکھائی جاتی تھی۔ یہ سب اس زمانے کی باتیں ہیں، جب چاوڑی آباد تھی، سنا ہے کہ دلی کی دو مشہور طوائفوں نے نواب جھجھر کی شناسائی کے لیے کی گئی پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ حضور میرے اصطبل کا خرچہ بھی نہیں اٹھاسکتے۔ وہ دونوں شام کے وقت سات گھوڑوں کی بگھی میں بیٹھ کر مٹرگشت کو نکلتی تھیں، بٹوارے کے ہنگامے تک یہاں موتی جان اور نوشابہ جان موجود تھیں، لیکن یہ ان کا بڑھاپا تھا، نہایت صاف ستھرے مکان میں جامع مسجد کے قریب رہائش پذیر تھیں۔ بیگماتی زبان بولتی تھیں، نوشابہ جان شاہی گایک استاد تان رس خان کے بیٹے امراؤ خان کی شاگرد تھیں۔ ان سے پہلے گانے والیوں میں امیر جان، شمشاد بائی، مجیدن بائی اور نواب پتلی اونچی گانے والیاں تھیں۔ طوائفوں کی رنگین محفلوں اور گائیکی کا ذکر گھنٹوں کیا جاسکتا ہے، مگر مناسب نہیں کہ اس قصے کو طول دیا جائے، بچے پڑھیںگے تو سوچیںگے کہ بڑھاپے میں بھڑ بھس سوجھی ہے، انہیں کیا معلوم کہ دلی والوں نے اس شوق کو بھی کس پاکیزگی اور تقوے طہارت سے نبھایا ہے، مختصر یہ ہے کہ طوائفوں کے جاہ و حشمت اور مرتبے کا اندازہ اس امر سے لگا لیجیے کہ دلی کے کئی سربرآوردہ سیاست داں اور برگزیدہ رئیس طوائف زادے تھے۔ا ن حضرات نے برسوں دلی کی سماجی زندگی میں ہماری آپ کی نمائندگی کی ہے۔ مرتے دم تک لوگوں کی آنکھ کا تارا بنے رہے۔ خدا ان کے مدارج بلند کرے اور کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے۔ لیجیے یہ قصہ یہاں ختم کرتا ہوں انشاء اللہ آئندہ دلی کی سماجی زندگی کے کسی اور پہلو پر روشنی ڈالی جائے گی۔ یار زندہ صحبت باقی۔
دلی کی عورتیں ۲
میرے بچپن کی دلی میں عورت کا گھر سے باہر قدم نکالنا معیوب تھا، اس کا منصب یہ سمجھا جاتا تھا کہ چراغ خانہ بنی رہے۔ شمع انجمن طوائفیں ہوتی ہیں۔ شدت پسندی کی بات تو جدا ہے وہ تو بہرحال ظلم اور زیادتی ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عورت کی بے ہنگام آزادی نے آج ہماری زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ معیشت کی مجبوری نے عورت مرد دونوں کو روزگار سے لگا دیا ہے۔ چنانچہ گھر ویران ہوگئے اور تھکے ماندے لوگ رات کے وقت ایک چھت کے نیچیسونے کے گنہگار ہیں دن بھر اوائی توائی پھرتے رہتے ہیں۔ بال بچے اول تو اب پیدا کرنے کا رواج ہی نہیں اور اگر کسی کے یہاں ہیں بھی تو ایک یا دو آگے آیت اللہ بس باقی ہوس پالنا ایک دوکا بھی اب مشکل ہوگیا ہے۔ گھر کے بڑے سب کام پر جاتے ہیں عورت ہو یا مرد کسی کو مفر نہیں بچے بیچارے کسی کے سنگت کو ترستے رہتے ہیں۔ ٹیلی ویژن جو کچھ سکھاتا ہے سیکھتے ہیں اور اپنی عمر سے بہت پہلے بالغ ہوجاتے ہیں۔ بچوں کا بچپن گیا اور بزرگوں کے لیے ان سے ملنے جلنے کے مواقع ناپید ہوگئے۔ پرانی دہلی کی داستان سناتے سناتے کہیں کہیں آج کل کا ذکر بھی آجاتا ہے اور میں دل کے پھپھولے پھوڑ لیتا ہوں، جانتا ہوں کہ اب ان تمام باتوں سے مفر نہیں جو اس عہد کی دین ہیں مگر کیا کروں اگلے فسانے یاد آتے ہیں اور آنکھوں دیکھی باتیں اب دیکھنے کو نہیں ملتیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یادش بخیر وہ دن بھی دیکھے تھے جب ہر طرف آسودگی تھی، عیش و عشرت تھا۔ دل جمعی تھی، امن و امان تھا، میل محبت اور پیار تھا، خلوص اور ایمانداری تھی۔ اب وہ سب ناپید ہوئے اور ان کی جگہ ان کی ضد اور مخالف رسم و رواج نے لے لی۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔ صبح سویرے بیدار ہونا موقوف ہوا، رات کو دیر تک جاگتے رہنا عام معمول ہوگیا۔ تہجد کے وقت بستر سنبھالا جاتا ہے اور دوپہر ظہر کے وقت تک خواب خرگوش میں پڑے رہتے ہیں۔ دل کو یہ کہہ کر سمجھا لیجیے کہ سدا ایک جیسے دن نہیں رہتے، جو آج ہے وہ کل نہیں جو کل ہوگاوہ آئندہ نہیں ، ان نینوں کا یہی بسیکھ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔ لیجیے پھر وہی قصہ سناتا ہوں یعنی اپنے زمانے کی عورتوں کے طور طریقے، رکھ رکھاؤ، شرم و حیا اور سلیقہ مندی دسوں انگلیاں دسوں چراغ رانڈ بیوائیں جن کا کوئی ولی وارث نہ ہوتا تھا۔ بدرجۂ مجبوری سر پر برقعہ ڈال کر باہر نکلتی تھیں۔ برقعے بھی آج کل کے فیشن ایبل نہیں ہوتے تھے جن میں بوٹی بوٹی تھرکتی ہے اور جسم کے خدو خال صاف نظر آتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ کھلے سے زیادہ ڈھکے میں جادو ہوتا ہے۔ عورتوں کی خصلت اور فطری مزاج پکار پکار کر کہتا ہے کہ مجھے دیکھیے اور داد دیجیے۔ میں نے اپنا سراپا آپ نظر بازوں کے لیے سنوارا ہے۔ پہلے زمانے میں برقعے سیدھے سادے ڈھیلے ڈھالے گاڑھے گزی یا لٹھے کے ہوتے تھے جن میں ڈیل ڈول ظاہر نہ ہوسکے۔ مجال کیا جو نقاب سرک جائے۔ شادی بیاہ یا کسی اور تقریب میں عورتوں کو گھر سے باہر جانا ہوتا تو ڈولی گھر کے دروازے پر لگ جاتی تھی۔ گھر والے گلی کے رخ چادر تانتے اور ڈولی میں سواریاں بیٹھ جاتیں، اترتے وقت بھی پردے کا یہی اہتمام ہوتا تھا۔ کہار آواز لگاتے ’’سواریاں اتروا لیجیے۔ گھر کی عورتیں دروازے پر آکر مہمانوں کو اترواتیں۔‘‘ کہار منہ پھیر کر چادر تان لیتے تھے۔ کہار بھی محلے ہی کے ہوتے تھے۔ انجانے کہاروں کی ڈولی میں عورتیں سوار نہیں ہوتی تھیں۔ ہر محلے کے سرے پر کہاروں کی دکان ہوتی تھی۔ بڈھے کہار بھی ہوتے تھے اور جوان بھی، مگر کبھی ایسی ویسی بات سننے میں نہیں آئی، اب تو موئے ڈرائیور ہی عصمتوں کے لٹیرے بن گئے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھتے عورت کا دم نکلتا ہے خدا جانے زندہ گھر پہنچے یا مردہ سے بدتر۔ ان دنوں کہار ایسے ایماندار ہوتے تھے کہ اگر ڈولی میں کسی کا زیور یا روپیہ پیسہ گر جاتا تھا تو انہی کے گھر پہنچا دیا جاتا تھا۔ خدا جانے وہ کالی کلوٹی مخلوق جو ان دنوں کہاروں کا پیشہ کیا کرتی تھی کہاں رو پوش ہوگئی، جن کے دم سے دلی کے گلی کوچے اور محلے آباد تھے۔ عورتوں کی معصومیت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے گھر کے بیرونی دروازے نہیں پہنچانتی تھیں۔ آزادی کے بعد جو مار کاٹ ہوئی تو پہاڑ گنج اور قرول باغ میں گھروں سے گھبرا کر عورتیں باہر نکل آئیں۔ ہنگامہ فرو ہونے پر وہ گھر کی ڈیوڑھی نہ پہچان سکیں اور پناہ گزینوں کے کیمپ میں پہنچا دی گئیں۔ جو بندھانی کی موت سے بچ گئے تھے وہ اپنی عورتوں کو کیمپ سے گھر لے گئے اور باقی کا خدا جانے کیا ہوا۔ ہماری ایک عزیز بزرگوار تھیں وہ اپنے زمانے کی عورتوں کا قصہ مزے لے لے کر سناتی ہیں۔ عورت ہونے کے باوجود انہیں عورتوں سے اللہ واسطے کا بیر ہے، مجھے ان سے پورا پورا اتفاق تو نہیں ہے، مگر ان کی باتیں سنتا ہوں تو مزا آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میرے مزاج میں بھی جاگیردارانہ عنصر رچا بسا ہے۔ انشاء اللہ زندگی رہی تو اگلی بار ان کی زبانی داستان خوبان جہاں پیش کروںگا۔ کیا اچھا ہے کیا برا اس کا فیصلہ آپ خود کیجیے گا، اتنا ضرور کہوںگا کہ جب صبح کا اخبار پڑھتا ہوں اور اس میں آٹھ دس خبریں عورتوں کے اغوا اور عصمت دری کی نظر سے گزرتی ہیں تو سچ جانیے اپنی مردانگی سے نفرت ہوجاتی ہے۔ کہتا ہوں اس سے تو وہ زمانہ لاکھ درجے اچھا تھا۔ بہو بیٹیاں آرام سے جی تو لیتی تھیں۔ گھر کی چار دیواری میں ہر طرح کا عیش تھا، ایک موئی نامراد آزادی ہی نہیں تھی۔ بھلا بتائیے تو سہی ایسی آزادی کا کیا کرنا جس میں آدمی خوف زدہ رہے اور ہر گھڑی عزت آبرو، جان جہان سب کو خطرہ ہو۔ بھٹ پڑے وہ سونا جس سے پھٹیں کان۔
شاہجہاں نے دلی بسائی تو اس امر کا خیال رکھا کہ عورتیں جنہیں خرید و فروخت کا شوق ہوتا ہے، انہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہو۔ بیٹی بٹار کی شادی کے لیے جہیز کا سامان کپڑا لتا، زیور سب انہیں ہی خریدنا ہوتا ہے، اس لیے گھر بیٹھے چار دیواری تک محدود زندگی میں ضرورت کی چیزیں خریدی جاسکیں۔ چنانچہ برقعے میں قصائی، کنجڑے، تیلی، تنبولی، بٹیے، بساطی کی دکان ضرور ہوتی تھی۔ ان دکانوں پر ملازم لڑکے رکھے جاتے تھے جو گھر گھر پوچھتے پھرتے تھے کہ بی بی کچھ منگانا ہو تو ہم لا دیتے ہیں۔ دکانوں کے علاوہ دن بھر پھیری والے آتے رہتے تھے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے دروازے پر آنے والے ایسے بھلے لوگ ہوتے تھے کہ نہ تو کبھی ان سے مالی نقصان ہوا اور نہ جانی نقصان ہوا۔ آج کل کی طرح نہیں کہگھر کا کام کاج کرنے کے لیے جو ملازمہ رکھی جاتی ہے۔ وہی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ جو عورت کسی کام سے گھر میں آتی تھی، وہ ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی دعائیں دینا شروع کردیتی تھی۔ اللہ سلامت رکھے بچے جئیں، دودھوںنہاؤ پوتوں پھلو، سر کی بادشاہی بنی رہے، روزی روزگار میں برکت ہو، اللہ عمر دراز کرے۔ کرکمینوں کی بول چال بھی شریفوں کے گھروں میں آنے کی وجہ سے منجھ گئی تھی۔ دلی کی مہترانیوںکی زبان تو اس قدر ستھری ہوتی تھی کہ باہر والے ان سے محاورے سیکھتے تھے۔ کمیری کما کر چلی جاتی تو یہ ججمانوں کے گھروں سے روٹی لینے آتی تھیں، صاف ستھرے کپڑے دونوں ہاتھ چاندی کی چوڑیوں سے بھرے ہوئے کلائیوں میں دس دس تولے چاندی کی مگر چودھانیاں، ٹھوس کڑے کانوں میں بالیاں پتے ناک میں سونے کی کیل، ہونٹوں پر لاکھا ہاتھ پیروں میں مہندی رچی ہوئی پور پور چھلے ہاتھ میں قلعی دار کونڈا اس پر چتا ہوا طباق، مجھے یاد ہے ایک مرتبہ والدہ محترمہ کی نیت اس طباق میں رکھی ہوئی شملہ مرچ پر آگئی تو انہوں نے مہترانی سے لے کر کھائی تھی۔ بھید بھاؤ، چھوت چھات کا ان دنوں مطلق رواج نہیں تھا۔ ہر گھر میں انہیں پان پیش کیا جاتا تھا۔ جسے وہدوپٹہ کے آنچل سے اٹھا کھا لیتیں اور دعائیں دے کر چلی جاتی تھیں۔
میرے بچپن کی دلی میں عورت کا گھر سے باہر قدم نکالنا معیوب تھا، اس کا منصب یہ سمجھا جاتا تھا کہ چراغ خانہ بنی رہے۔ شمع انجمن طوائفیں ہوتی ہیں۔ شدت پسندی کی بات تو جدا ہے وہ تو بہرحال ظلم اور زیادتی ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عورت کی بے ہنگام آزادی نے آج ہماری زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ معیشت کی مجبوری نے عورت مرد دونوں کو روزگار سے لگا دیا ہے۔ چنانچہ گھر ویران ہوگئے اور تھکے ماندے لوگ رات کے وقت ایک چھت کے نیچیسونے کے گنہگار ہیں دن بھر اوائی توائی پھرتے رہتے ہیں۔ بال بچے اول تو اب پیدا کرنے کا رواج ہی نہیں اور اگر کسی کے یہاں ہیں بھی تو ایک یا دو آگے آیت اللہ بس باقی ہوس پالنا ایک دوکا بھی اب مشکل ہوگیا ہے۔ گھر کے بڑے سب کام پر جاتے ہیں عورت ہو یا مرد کسی کو مفر نہیں بچے بیچارے کسی کے سنگت کو ترستے رہتے ہیں۔ ٹیلی ویژن جو کچھ سکھاتا ہے سیکھتے ہیں اور اپنی عمر سے بہت پہلے بالغ ہوجاتے ہیں۔ بچوں کا بچپن گیا اور بزرگوں کے لیے ان سے ملنے جلنے کے مواقع ناپید ہوگئے۔ پرانی دہلی کی داستان سناتے سناتے کہیں کہیں آج کل کا ذکر بھی آجاتا ہے اور میں دل کے پھپھولے پھوڑ لیتا ہوں، جانتا ہوں کہ اب ان تمام باتوں سے مفر نہیں جو اس عہد کی دین ہیں مگر کیا کروں اگلے فسانے یاد آتے ہیں اور آنکھوں دیکھی باتیں اب دیکھنے کو نہیں ملتیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یادش بخیر وہ دن بھی دیکھے تھے جب ہر طرف آسودگی تھی، عیش و عشرت تھا۔ دل جمعی تھی، امن و امان تھا، میل محبت اور پیار تھا، خلوص اور ایمانداری تھی۔ اب وہ سب ناپید ہوئے اور ان کی جگہ ان کی ضد اور مخالف رسم و رواج نے لے لی۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔ صبح سویرے بیدار ہونا موقوف ہوا، رات کو دیر تک جاگتے رہنا عام معمول ہوگیا۔ تہجد کے وقت بستر سنبھالا جاتا ہے اور دوپہر ظہر کے وقت تک خواب خرگوش میں پڑے رہتے ہیں۔ دل کو یہ کہہ کر سمجھا لیجیے کہ سدا ایک جیسے دن نہیں رہتے، جو آج ہے وہ کل نہیں جو کل ہوگاوہ آئندہ نہیں ، ان نینوں کا یہی بسیکھ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔ لیجیے پھر وہی قصہ سناتا ہوں یعنی اپنے زمانے کی عورتوں کے طور طریقے، رکھ رکھاؤ، شرم و حیا اور سلیقہ مندی دسوں انگلیاں دسوں چراغ رانڈ بیوائیں جن کا کوئی ولی وارث نہ ہوتا تھا۔ بدرجۂ مجبوری سر پر برقعہ ڈال کر باہر نکلتی تھیں۔ برقعے بھی آج کل کے فیشن ایبل نہیں ہوتے تھے جن میں بوٹی بوٹی تھرکتی ہے اور جسم کے خدو خال صاف نظر آتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ کھلے سے زیادہ ڈھکے میں جادو ہوتا ہے۔ عورتوں کی خصلت اور فطری مزاج پکار پکار کر کہتا ہے کہ مجھے دیکھیے اور داد دیجیے۔ میں نے اپنا سراپا آپ نظر بازوں کے لیے سنوارا ہے۔ پہلے زمانے میں برقعے سیدھے سادے ڈھیلے ڈھالے گاڑھے گزی یا لٹھے کے ہوتے تھے جن میں ڈیل ڈول ظاہر نہ ہوسکے۔ مجال کیا جو نقاب سرک جائے۔ شادی بیاہ یا کسی اور تقریب میں عورتوں کو گھر سے باہر جانا ہوتا تو ڈولی گھر کے دروازے پر لگ جاتی تھی۔ گھر والے گلی کے رخ چادر تانتے اور ڈولی میں سواریاں بیٹھ جاتیں، اترتے وقت بھی پردے کا یہی اہتمام ہوتا تھا۔ کہار آواز لگاتے ’’سواریاں اتروا لیجیے۔ گھر کی عورتیں دروازے پر آکر مہمانوں کو اترواتیں۔‘‘ کہار منہ پھیر کر چادر تان لیتے تھے۔ کہار بھی محلے ہی کے ہوتے تھے۔ انجانے کہاروں کی ڈولی میں عورتیں سوار نہیں ہوتی تھیں۔ ہر محلے کے سرے پر کہاروں کی دکان ہوتی تھی۔ بڈھے کہار بھی ہوتے تھے اور جوان بھی، مگر کبھی ایسی ویسی بات سننے میں نہیں آئی، اب تو موئے ڈرائیور ہی عصمتوں کے لٹیرے بن گئے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھتے عورت کا دم نکلتا ہے خدا جانے زندہ گھر پہنچے یا مردہ سے بدتر۔ ان دنوں کہار ایسے ایماندار ہوتے تھے کہ اگر ڈولی میں کسی کا زیور یا روپیہ پیسہ گر جاتا تھا تو انہی کے گھر پہنچا دیا جاتا تھا۔ خدا جانے وہ کالی کلوٹی مخلوق جو ان دنوں کہاروں کا پیشہ کیا کرتی تھی کہاں رو پوش ہوگئی، جن کے دم سے دلی کے گلی کوچے اور محلے آباد تھے۔ عورتوں کی معصومیت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے گھر کے بیرونی دروازے نہیں پہنچانتی تھیں۔ آزادی کے بعد جو مار کاٹ ہوئی تو پہاڑ گنج اور قرول باغ میں گھروں سے گھبرا کر عورتیں باہر نکل آئیں۔ ہنگامہ فرو ہونے پر وہ گھر کی ڈیوڑھی نہ پہچان سکیں اور پناہ گزینوں کے کیمپ میں پہنچا دی گئیں۔ جو بندھانی کی موت سے بچ گئے تھے وہ اپنی عورتوں کو کیمپ سے گھر لے گئے اور باقی کا خدا جانے کیا ہوا۔ ہماری ایک عزیز بزرگوار تھیں وہ اپنے زمانے کی عورتوں کا قصہ مزے لے لے کر سناتی ہیں۔ عورت ہونے کے باوجود انہیں عورتوں سے اللہ واسطے کا بیر ہے، مجھے ان سے پورا پورا اتفاق تو نہیں ہے، مگر ان کی باتیں سنتا ہوں تو مزا آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میرے مزاج میں بھی جاگیردارانہ عنصر رچا بسا ہے۔ انشاء اللہ زندگی رہی تو اگلی بار ان کی زبانی داستان خوبان جہاں پیش کروںگا۔ کیا اچھا ہے کیا برا اس کا فیصلہ آپ خود کیجیے گا، اتنا ضرور کہوںگا کہ جب صبح کا اخبار پڑھتا ہوں اور اس میں آٹھ دس خبریں عورتوں کے اغوا اور عصمت دری کی نظر سے گزرتی ہیں تو سچ جانیے اپنی مردانگی سے نفرت ہوجاتی ہے۔ کہتا ہوں اس سے تو وہ زمانہ لاکھ درجے اچھا تھا۔ بہو بیٹیاں آرام سے جی تو لیتی تھیں۔ گھر کی چار دیواری میں ہر طرح کا عیش تھا، ایک موئی نامراد آزادی ہی نہیں تھی۔ بھلا بتائیے تو سہی ایسی آزادی کا کیا کرنا جس میں آدمی خوف زدہ رہے اور ہر گھڑی عزت آبرو، جان جہان سب کو خطرہ ہو۔ بھٹ پڑے وہ سونا جس سے پھٹیں کان۔
شاہجہاں نے دلی بسائی تو اس امر کا خیال رکھا کہ عورتیں جنہیں خرید و فروخت کا شوق ہوتا ہے، انہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہو۔ بیٹی بٹار کی شادی کے لیے جہیز کا سامان کپڑا لتا، زیور سب انہیں ہی خریدنا ہوتا ہے، اس لیے گھر بیٹھے چار دیواری تک محدود زندگی میں ضرورت کی چیزیں خریدی جاسکیں۔ چنانچہ برقعے میں قصائی، کنجڑے، تیلی، تنبولی، بٹیے، بساطی کی دکان ضرور ہوتی تھی۔ ان دکانوں پر ملازم لڑکے رکھے جاتے تھے جو گھر گھر پوچھتے پھرتے تھے کہ بی بی کچھ منگانا ہو تو ہم لا دیتے ہیں۔ دکانوں کے علاوہ دن بھر پھیری والے آتے رہتے تھے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے دروازے پر آنے والے ایسے بھلے لوگ ہوتے تھے کہ نہ تو کبھی ان سے مالی نقصان ہوا اور نہ جانی نقصان ہوا۔ آج کل کی طرح نہیں کہگھر کا کام کاج کرنے کے لیے جو ملازمہ رکھی جاتی ہے۔ وہی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ جو عورت کسی کام سے گھر میں آتی تھی، وہ ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی دعائیں دینا شروع کردیتی تھی۔ اللہ سلامت رکھے بچے جئیں، دودھوںنہاؤ پوتوں پھلو، سر کی بادشاہی بنی رہے، روزی روزگار میں برکت ہو، اللہ عمر دراز کرے۔ کرکمینوں کی بول چال بھی شریفوں کے گھروں میں آنے کی وجہ سے منجھ گئی تھی۔ دلی کی مہترانیوںکی زبان تو اس قدر ستھری ہوتی تھی کہ باہر والے ان سے محاورے سیکھتے تھے۔ کمیری کما کر چلی جاتی تو یہ ججمانوں کے گھروں سے روٹی لینے آتی تھیں، صاف ستھرے کپڑے دونوں ہاتھ چاندی کی چوڑیوں سے بھرے ہوئے کلائیوں میں دس دس تولے چاندی کی مگر چودھانیاں، ٹھوس کڑے کانوں میں بالیاں پتے ناک میں سونے کی کیل، ہونٹوں پر لاکھا ہاتھ پیروں میں مہندی رچی ہوئی پور پور چھلے ہاتھ میں قلعی دار کونڈا اس پر چتا ہوا طباق، مجھے یاد ہے ایک مرتبہ والدہ محترمہ کی نیت اس طباق میں رکھی ہوئی شملہ مرچ پر آگئی تو انہوں نے مہترانی سے لے کر کھائی تھی۔ بھید بھاؤ، چھوت چھات کا ان دنوں مطلق رواج نہیں تھا۔ ہر گھر میں انہیں پان پیش کیا جاتا تھا۔ جسے وہدوپٹہ کے آنچل سے اٹھا کھا لیتیں اور دعائیں دے کر چلی جاتی تھیں۔
بوا صداقت زمانی
بواصداقت زمانی سے ہمارا دور پرے کا رشتہ ہے۔ اس لیے مجھے گاہ بگاہ ان کے یہاں جانا ہوتا ہے۔ وہ بھی میری بڑی مداح ہیں۔ مجھے گئے ہوئے کچھ دن ہوجائیں تو ان کے تقاضے آنے لگتے ہیں، صداقت بوا لاکھ نیکوں کی نیک سہی مگر انہیں اپنی قوم سے اللہ واسطے کا بیر ہے اور سب سے زیادہ عزیز آج کل والیوں کا رونا ہے۔ میں بھی ان کی رگ رگ سے واقف ہوں، جب کبھی ان کی شعلہ بیانیوں سے لطف اندوز ہونے کو جی چاہتا ہے تو بھس میں چنگاری ڈال دیتا ہوں۔ دادی اب تو لڑکیوں نے بڑی ترقی کرلی ہے ہزاروں لاکھوں کالجوں میں پڑھتی ہیں۔ ہر کام میں مردوں سے آگے ہیں۔ میں تو اتنا کہہ کر چپ ہوا اور وہ آئیں تو جائیں کہاں۔ نا بیٹا ہمارے زمانے میں تو لڑکیوں کا گھر سے نکلنا عیب سمجھا جاتا تھا۔ ہم کیا جانیں موئے لڑکوں کے ساتھ ہش گڈی کرتے پھرنا۔ پھر نوکری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانا جوتیاں چٹخاتے پھرنا، پہلے تو ادھر میٹھا برس لگا اور ادھر ماں باپ نے ادھی پاؤلی کا مزدور دیکھ ہاتھ پیلے کردئے۔ لو جی لڑکی پرائے گھر کی ہوگئی نہ باسی بچے نہ کتا کھائے۔ نوج جو ہمیں کمانا پڑتا۔ ہمارے میاں، اللہ ان کی قبر کو ٹھنڈا رکھے، کہتے تھے کہ عورت کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار میں نے وقت گزارنے کو دو ٹکے کی مزدوری کے لیے گجائی بھی لپیٹی تو انہوں نے سینکڑوں صلواتیں سنائیں۔ میں کہتی تھی خالی سے بیگار بھلی مگر وہ طنطنا جاتے اور ایسے ہنکارتے کہ سارا محلہ سر پر اٹھا لیتے تھے۔ وہ جو مثل ہے نا کہ خدا کی طرف سے شکر خورے کو شکر اور موذی کو ٹکر تو ہمیں کبھی پیسے کوڑی کی تکلیف بھی نہیں ہوئی۔ جب تک وہ رہے خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، بیگموں کی طرح راج کیا۔ صبح اٹھے خزان حلوائی کے ہاں سے دونا بھرا حلوہ اور پوڑی لے آئے۔ دونوں نے ناشتہ کرلیا۔ چائے وائے کا ان دنوں رواج نہیں تھا۔ موئے انگریز مفت بانٹتے تھے مگر لوگوں نے پڑیالی اور نالی میں الٹ دی۔ ائے ہاں کون پیتا کڑوا کسیلا جوشاندہ اب دیکھو تو کوئی چائے بغیر ہلتا ہی نہیں، کہتے ہیں چائے میں پوست کا تلچھٹ ملا ہوتا ہے۔ اللہ جانے سچ یا جھوٹ۔ ناشتہ کرکے میاں تو اپنے کام پر چلے جاتے تھے اور میرے پاس آنے جانے والوں کا تانتا بندھ جاتا تھا۔ ذرا دیر میں اچھی خاصی محفل ہوجاتی تھی۔ پٹاری کی چوکی گھسیٹ بیچ میں رکھی سب نے کلے تازے کیے اور بھئی باتیں شروع ہوگئیں۔ جھاڑو بہارو پکانے ریندھنے کے لیے ماما ملازم تھی۔ گھر کی بیگم کو ہاتھ ہلانے کی ضرورت نہیں تھی۔ بس باتوں باتوں میں دن ڈھل جاتا تھا۔ بھلا ہم کیا جانیں بازار والیوں کی طرح مارے مارے پھرنا۔ آج کل والیوں کے تو ہدڑے گئے ہیں۔ پیروں میں بلیاں بندھی ہیں۔ میرے تو دیکھ دیکھ کے ہوش اڑتے ہیں۔ یا اللہ عورتیں کیا ہوئیں خوش بختیاں تماشا ہوگئیں جو برقعے والیاں ہیں وہ صبح سے شام تک برقعے پھڑکاتے پھرتی ہیں، جنہوں نے اتار دئے انہیں تو خیر روک بھی کون سکتا ہے۔ موئی پچھل پائیاں، خدا کا خوف نہ دنیا کی شرم۔
میں پہلے تو خاموش بیٹھا مٹر مٹر سنتا رہا پھر آہستہ سے شرّا چھوڑا۔ کیا کیا جائے دادی مرد بھی تو تمہارے وقتوں کے نہیں۔ انہوں نے ساری ذمے داری عورتوں پر ڈال دی۔ میری حمایت پر ان کا جوش و خروش دو بالا ہوگیا۔ تلملا کر بولیں، بہن جی مرد بیچاروں کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ انہیں تو یہ کالے سر والیاں جس طرح چاہیں نچالیں۔ پر ذرا شرما کے کہتیں۔ اللہ بخشے ان کی حیات میں جب کسی بات پر اڑ جاتی تھی تو اسے پورا کرا کر ہی چھوڑتی تھی۔ وہ کھسیانے ہو کر کہتے تم تو جھاڑ کا کانٹا بن گئی ہو، اچھا جو چاہو کرو، تم جیسی موٹی عقل والی سے کون بحثے۔ مثل مشہور ہے عورت کی عقل پاؤں کی ایڑی میں ہوتی ہے۔ چلتے چلتے گھسی اور برابر ہوئی بٹیا تیری تو خیر عمر ہی کیا ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تجھے پیدا ہوئے لوگ مرتے مر گئے، عورت کی ذات کو نہ سمجھنا تھا نہ سمجھے مثل مشہور ہے عورت کے سر میں جتنے بال اس سے زیادہ اس میں چلتر ہوتے ہیں۔
اس بندی کی عجیب خصلت ہے، نہ اس کل چین نہ اس کل چین وہ جو کہتے ہیں کہ گیڈر کی شامت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے۔ میں پوچھتی ہوں اس خیلاخبطن پر کیا مصیبت پڑی تھی جو اچھا خاصا گھر چھوڑ نگوڑی ناٹی سڑکوں پر دھول پھانکنے نکل پڑی۔ سوٹہل کرتی ہے جب دو روٹیاں میسر آتی ہیں۔ آگ لگے ایسی کمائی کو۔ عزت آبرو سب ملیامیٹ کردی اور بھئی دیکھنا آرام کے تو سب رسیا ہیں مردوں نے جو دیکھا کہ اس عقل کی اندھی نے ہمارا جوا اپنے کاندھوں پر رکھ لیا تو ہاتھ جھاڑ الگ ہوگئے۔ لو جی اب کماؤ بھی تم، میاں کی خدمت بھی کرو، بچوں کو پالو اور سارے کنبے کی ٹلے نویسی سو الگ۔ عورت بے وقوف خوش ہے کہ آزادی مل گئی۔ میں کہتی ہوں اس آزادی سے تو غلامی ہزار درجہ اچھی تھی، بھٹ پڑے وہ سونا جس سے چھدیں کان۔ میں تو سچی بات کہوںگی۔ چراغ سحری ہوں، گور گڑھا سامنے نظر آتا ہے جوانی میں تو خیر جو چاہا کیا، مگر اب سفید چونڈھے پر جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ آخر اللہ کے پاس بھی تو جانا ہے۔ مرد بے چاروں نے کیا نہیں کیا۔ خود بعد میں کھایا ان نیک بختوں کو پہلے کھلایا، ہزار طرح کے عیش کرائے، لونڈی باندی انا چھو چھو اور غلام پیچھے پیچھے پھر ائے کپڑا لتا، گہنا پاتا گھر بیٹھے حاضر، زربفت، زری اطلسی، کمخواب، تاش، تمامی سونا چاندی ہیرے جواہرات کون سی چیز تھی جو اسے میسر نہیں آئی۔ آٹھ آٹھ گزے غرارے، جہاز کے جہاز، گہنے کا یہ عالم کہ سونے میں لدی پڑی ہیں۔ گلے میں مالا گلوبند، مگر چودانیاں، ہنسلی ماتھے پہ جھومر، ٹیکہ اور د س دس طرح کے زیور مجھے تواللہ کی سنوار نام بھی لینے نہیں آتے، اس پر بھی یہ آفت زادیاں مردوں کو برا کہتی ہیں۔ ان کے دئے کا پاپ نہ پن سچ ہے گدھے کی آنکھوں میں نون دیا گدھا کہے میرے دیدے پھوٹے۔ غیرت دار ہوں تو مردوں کے پیر دھو دھو کر پئیں۔ جاؤ میں کہتی ہوں کہ جو مزے مردوں کے بل بوتے پر کرلیے، وہ بھلا نصیب تو ہوجائیں اب انہیں آخر اللہ رسول نے جو مرد کو حاکم بنایا ہے تو کیا نعوذ باللہ غلط بنایا ہے، جس نے نہ لی بڑوں کی سیکھ اس نے مانگی در در بھیک۔
اب دیکھ لو۔ اس خانہ خراب آزادی نے کچھ ہی دنوں میں کیا حال بنایا ہے۔ گاڑھے گزی کی کرتیاں اور وہ بھی کم بخت بندریوں کی سی سرنگی کے غلاف، شلواریں ہیں تو وہ اچکواں آزادی سے بیٹھنے دیں نہ اٹھنے دیں، پھر کپڑوں پر نہ پیمک نہ گوٹا نہ ٹھپا نہ مالا، نہ گجائی نہ مقیش۔ موئی ڈیڑھ ڈیڑھ گز کی اوڑھنیاں گلے میں پھانسی کے پھندے کی طرح پڑی ہیں۔ نہ سینہ ڈھکے نہ سر۔ غیرت تو خدا جانے کہاں بیچ کھائی ایک سے ایک زیادہ چالاک، ترت پھرت، نا بھئی نا اللہ معاف کرے ہمارے زمانے میں ایسی بے غیرتیں ہوتیں تو دیوار میں چنوائی جائیں۔ میرا تو دیکھ دیکھ کے کلیجہ خاک ہوتا ہے روز روز نت نئے سوانگ نت نئے فیشن۔ کبھی دیکھو تو کانوں میں بڑے بڑے سپیروں کے سے بالے، ہاتھوں میں موٹی موٹی سادی چوڑیاں اور کبھی ہاتھ بھی خالی، کان بھی خالی۔ لوٹھا کی لوٹھا مرد بنی پھر رہی ہیں۔ کپڑے پہنیں تو آج کے کل بے کار، کبھی اتنے ڈھیلے کہ ایک میں چار سما جائیں، بھوسی ٹکڑے والیوں کی جھولیاں اور کبھی کسے تو ایسے کہ گاؤ تکیہ کے غلاف بنا دئے اب ایک پہنے تو دوسرا پہنائے۔ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا سب مشکل ہوجائے۔ سونے چاندی گہنے پاتے کا انہیں شوق نہیں گھی گرگیا تو ابالی بھانے لگی۔ خیر جی ابھی تو نہ جانے کیا کیا دیکھنا پرے گا۔ قرب قیامت ہے۔ پرانی آنکھیں نیا زمانہ، ان نینوں کا یہی بسیکھ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔
میں نے کہا دادی تم تو عورتوں کے خلاف بھری بیٹھی ہو، مردوں کے ظلم زیادتی کا کچھ ذکر ہی نہیں۔ ظلم کے خلاف عورت نے بالآخر بغاوت کردی۔ ’’ہوں‘‘ کہہ کر انہوں نے میری بات ہوا میں اڑا دی۔ کیا بغاوت و غاوت کچھ نہیں عورت کی ذات ہی ایسی ہے کہ سونے کا نوالہ بھی کھلاؤ تو بھی اپنی نہیں۔ اس پر احسان کرنا سانپ کو پالنا ہے۔ جندری ایسی بے چین کہ جنت میں ہمارے تو کل نہ آئے گی۔ اس آفت کی پرکالہ نے ہزارہا فتنے بپا کیے اور پھر ہے کہ معصوم کی معصوم۔ وہ تو یہ کہو کہ مردوں کی عقل پر پتھر پڑے ہیں جو آج تک اس کی فطرت کو نہ سمجھے اگر سمجھ جائیں تو قسم کھا کر کہتی ہوں، اس کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھیں تم تو ماشاء اللہ پڑھے لکھے ہو تم نے سنسکرت کا یہ شلوک بھی ضرور سنا ہوگا۔
استری چریترم پرششِ بھاگیم دیو و نہ جانا تی کتومنش۔
بواصداقت زمانی سے ہمارا دور پرے کا رشتہ ہے۔ اس لیے مجھے گاہ بگاہ ان کے یہاں جانا ہوتا ہے۔ وہ بھی میری بڑی مداح ہیں۔ مجھے گئے ہوئے کچھ دن ہوجائیں تو ان کے تقاضے آنے لگتے ہیں، صداقت بوا لاکھ نیکوں کی نیک سہی مگر انہیں اپنی قوم سے اللہ واسطے کا بیر ہے اور سب سے زیادہ عزیز آج کل والیوں کا رونا ہے۔ میں بھی ان کی رگ رگ سے واقف ہوں، جب کبھی ان کی شعلہ بیانیوں سے لطف اندوز ہونے کو جی چاہتا ہے تو بھس میں چنگاری ڈال دیتا ہوں۔ دادی اب تو لڑکیوں نے بڑی ترقی کرلی ہے ہزاروں لاکھوں کالجوں میں پڑھتی ہیں۔ ہر کام میں مردوں سے آگے ہیں۔ میں تو اتنا کہہ کر چپ ہوا اور وہ آئیں تو جائیں کہاں۔ نا بیٹا ہمارے زمانے میں تو لڑکیوں کا گھر سے نکلنا عیب سمجھا جاتا تھا۔ ہم کیا جانیں موئے لڑکوں کے ساتھ ہش گڈی کرتے پھرنا۔ پھر نوکری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانا جوتیاں چٹخاتے پھرنا، پہلے تو ادھر میٹھا برس لگا اور ادھر ماں باپ نے ادھی پاؤلی کا مزدور دیکھ ہاتھ پیلے کردئے۔ لو جی لڑکی پرائے گھر کی ہوگئی نہ باسی بچے نہ کتا کھائے۔ نوج جو ہمیں کمانا پڑتا۔ ہمارے میاں، اللہ ان کی قبر کو ٹھنڈا رکھے، کہتے تھے کہ عورت کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار میں نے وقت گزارنے کو دو ٹکے کی مزدوری کے لیے گجائی بھی لپیٹی تو انہوں نے سینکڑوں صلواتیں سنائیں۔ میں کہتی تھی خالی سے بیگار بھلی مگر وہ طنطنا جاتے اور ایسے ہنکارتے کہ سارا محلہ سر پر اٹھا لیتے تھے۔ وہ جو مثل ہے نا کہ خدا کی طرف سے شکر خورے کو شکر اور موذی کو ٹکر تو ہمیں کبھی پیسے کوڑی کی تکلیف بھی نہیں ہوئی۔ جب تک وہ رہے خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، بیگموں کی طرح راج کیا۔ صبح اٹھے خزان حلوائی کے ہاں سے دونا بھرا حلوہ اور پوڑی لے آئے۔ دونوں نے ناشتہ کرلیا۔ چائے وائے کا ان دنوں رواج نہیں تھا۔ موئے انگریز مفت بانٹتے تھے مگر لوگوں نے پڑیالی اور نالی میں الٹ دی۔ ائے ہاں کون پیتا کڑوا کسیلا جوشاندہ اب دیکھو تو کوئی چائے بغیر ہلتا ہی نہیں، کہتے ہیں چائے میں پوست کا تلچھٹ ملا ہوتا ہے۔ اللہ جانے سچ یا جھوٹ۔ ناشتہ کرکے میاں تو اپنے کام پر چلے جاتے تھے اور میرے پاس آنے جانے والوں کا تانتا بندھ جاتا تھا۔ ذرا دیر میں اچھی خاصی محفل ہوجاتی تھی۔ پٹاری کی چوکی گھسیٹ بیچ میں رکھی سب نے کلے تازے کیے اور بھئی باتیں شروع ہوگئیں۔ جھاڑو بہارو پکانے ریندھنے کے لیے ماما ملازم تھی۔ گھر کی بیگم کو ہاتھ ہلانے کی ضرورت نہیں تھی۔ بس باتوں باتوں میں دن ڈھل جاتا تھا۔ بھلا ہم کیا جانیں بازار والیوں کی طرح مارے مارے پھرنا۔ آج کل والیوں کے تو ہدڑے گئے ہیں۔ پیروں میں بلیاں بندھی ہیں۔ میرے تو دیکھ دیکھ کے ہوش اڑتے ہیں۔ یا اللہ عورتیں کیا ہوئیں خوش بختیاں تماشا ہوگئیں جو برقعے والیاں ہیں وہ صبح سے شام تک برقعے پھڑکاتے پھرتی ہیں، جنہوں نے اتار دئے انہیں تو خیر روک بھی کون سکتا ہے۔ موئی پچھل پائیاں، خدا کا خوف نہ دنیا کی شرم۔
میں پہلے تو خاموش بیٹھا مٹر مٹر سنتا رہا پھر آہستہ سے شرّا چھوڑا۔ کیا کیا جائے دادی مرد بھی تو تمہارے وقتوں کے نہیں۔ انہوں نے ساری ذمے داری عورتوں پر ڈال دی۔ میری حمایت پر ان کا جوش و خروش دو بالا ہوگیا۔ تلملا کر بولیں، بہن جی مرد بیچاروں کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ انہیں تو یہ کالے سر والیاں جس طرح چاہیں نچالیں۔ پر ذرا شرما کے کہتیں۔ اللہ بخشے ان کی حیات میں جب کسی بات پر اڑ جاتی تھی تو اسے پورا کرا کر ہی چھوڑتی تھی۔ وہ کھسیانے ہو کر کہتے تم تو جھاڑ کا کانٹا بن گئی ہو، اچھا جو چاہو کرو، تم جیسی موٹی عقل والی سے کون بحثے۔ مثل مشہور ہے عورت کی عقل پاؤں کی ایڑی میں ہوتی ہے۔ چلتے چلتے گھسی اور برابر ہوئی بٹیا تیری تو خیر عمر ہی کیا ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تجھے پیدا ہوئے لوگ مرتے مر گئے، عورت کی ذات کو نہ سمجھنا تھا نہ سمجھے مثل مشہور ہے عورت کے سر میں جتنے بال اس سے زیادہ اس میں چلتر ہوتے ہیں۔
اس بندی کی عجیب خصلت ہے، نہ اس کل چین نہ اس کل چین وہ جو کہتے ہیں کہ گیڈر کی شامت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے۔ میں پوچھتی ہوں اس خیلاخبطن پر کیا مصیبت پڑی تھی جو اچھا خاصا گھر چھوڑ نگوڑی ناٹی سڑکوں پر دھول پھانکنے نکل پڑی۔ سوٹہل کرتی ہے جب دو روٹیاں میسر آتی ہیں۔ آگ لگے ایسی کمائی کو۔ عزت آبرو سب ملیامیٹ کردی اور بھئی دیکھنا آرام کے تو سب رسیا ہیں مردوں نے جو دیکھا کہ اس عقل کی اندھی نے ہمارا جوا اپنے کاندھوں پر رکھ لیا تو ہاتھ جھاڑ الگ ہوگئے۔ لو جی اب کماؤ بھی تم، میاں کی خدمت بھی کرو، بچوں کو پالو اور سارے کنبے کی ٹلے نویسی سو الگ۔ عورت بے وقوف خوش ہے کہ آزادی مل گئی۔ میں کہتی ہوں اس آزادی سے تو غلامی ہزار درجہ اچھی تھی، بھٹ پڑے وہ سونا جس سے چھدیں کان۔ میں تو سچی بات کہوںگی۔ چراغ سحری ہوں، گور گڑھا سامنے نظر آتا ہے جوانی میں تو خیر جو چاہا کیا، مگر اب سفید چونڈھے پر جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ آخر اللہ کے پاس بھی تو جانا ہے۔ مرد بے چاروں نے کیا نہیں کیا۔ خود بعد میں کھایا ان نیک بختوں کو پہلے کھلایا، ہزار طرح کے عیش کرائے، لونڈی باندی انا چھو چھو اور غلام پیچھے پیچھے پھر ائے کپڑا لتا، گہنا پاتا گھر بیٹھے حاضر، زربفت، زری اطلسی، کمخواب، تاش، تمامی سونا چاندی ہیرے جواہرات کون سی چیز تھی جو اسے میسر نہیں آئی۔ آٹھ آٹھ گزے غرارے، جہاز کے جہاز، گہنے کا یہ عالم کہ سونے میں لدی پڑی ہیں۔ گلے میں مالا گلوبند، مگر چودانیاں، ہنسلی ماتھے پہ جھومر، ٹیکہ اور د س دس طرح کے زیور مجھے تواللہ کی سنوار نام بھی لینے نہیں آتے، اس پر بھی یہ آفت زادیاں مردوں کو برا کہتی ہیں۔ ان کے دئے کا پاپ نہ پن سچ ہے گدھے کی آنکھوں میں نون دیا گدھا کہے میرے دیدے پھوٹے۔ غیرت دار ہوں تو مردوں کے پیر دھو دھو کر پئیں۔ جاؤ میں کہتی ہوں کہ جو مزے مردوں کے بل بوتے پر کرلیے، وہ بھلا نصیب تو ہوجائیں اب انہیں آخر اللہ رسول نے جو مرد کو حاکم بنایا ہے تو کیا نعوذ باللہ غلط بنایا ہے، جس نے نہ لی بڑوں کی سیکھ اس نے مانگی در در بھیک۔
اب دیکھ لو۔ اس خانہ خراب آزادی نے کچھ ہی دنوں میں کیا حال بنایا ہے۔ گاڑھے گزی کی کرتیاں اور وہ بھی کم بخت بندریوں کی سی سرنگی کے غلاف، شلواریں ہیں تو وہ اچکواں آزادی سے بیٹھنے دیں نہ اٹھنے دیں، پھر کپڑوں پر نہ پیمک نہ گوٹا نہ ٹھپا نہ مالا، نہ گجائی نہ مقیش۔ موئی ڈیڑھ ڈیڑھ گز کی اوڑھنیاں گلے میں پھانسی کے پھندے کی طرح پڑی ہیں۔ نہ سینہ ڈھکے نہ سر۔ غیرت تو خدا جانے کہاں بیچ کھائی ایک سے ایک زیادہ چالاک، ترت پھرت، نا بھئی نا اللہ معاف کرے ہمارے زمانے میں ایسی بے غیرتیں ہوتیں تو دیوار میں چنوائی جائیں۔ میرا تو دیکھ دیکھ کے کلیجہ خاک ہوتا ہے روز روز نت نئے سوانگ نت نئے فیشن۔ کبھی دیکھو تو کانوں میں بڑے بڑے سپیروں کے سے بالے، ہاتھوں میں موٹی موٹی سادی چوڑیاں اور کبھی ہاتھ بھی خالی، کان بھی خالی۔ لوٹھا کی لوٹھا مرد بنی پھر رہی ہیں۔ کپڑے پہنیں تو آج کے کل بے کار، کبھی اتنے ڈھیلے کہ ایک میں چار سما جائیں، بھوسی ٹکڑے والیوں کی جھولیاں اور کبھی کسے تو ایسے کہ گاؤ تکیہ کے غلاف بنا دئے اب ایک پہنے تو دوسرا پہنائے۔ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا سب مشکل ہوجائے۔ سونے چاندی گہنے پاتے کا انہیں شوق نہیں گھی گرگیا تو ابالی بھانے لگی۔ خیر جی ابھی تو نہ جانے کیا کیا دیکھنا پرے گا۔ قرب قیامت ہے۔ پرانی آنکھیں نیا زمانہ، ان نینوں کا یہی بسیکھ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔
میں نے کہا دادی تم تو عورتوں کے خلاف بھری بیٹھی ہو، مردوں کے ظلم زیادتی کا کچھ ذکر ہی نہیں۔ ظلم کے خلاف عورت نے بالآخر بغاوت کردی۔ ’’ہوں‘‘ کہہ کر انہوں نے میری بات ہوا میں اڑا دی۔ کیا بغاوت و غاوت کچھ نہیں عورت کی ذات ہی ایسی ہے کہ سونے کا نوالہ بھی کھلاؤ تو بھی اپنی نہیں۔ اس پر احسان کرنا سانپ کو پالنا ہے۔ جندری ایسی بے چین کہ جنت میں ہمارے تو کل نہ آئے گی۔ اس آفت کی پرکالہ نے ہزارہا فتنے بپا کیے اور پھر ہے کہ معصوم کی معصوم۔ وہ تو یہ کہو کہ مردوں کی عقل پر پتھر پڑے ہیں جو آج تک اس کی فطرت کو نہ سمجھے اگر سمجھ جائیں تو قسم کھا کر کہتی ہوں، اس کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھیں تم تو ماشاء اللہ پڑھے لکھے ہو تم نے سنسکرت کا یہ شلوک بھی ضرور سنا ہوگا۔
استری چریترم پرششِ بھاگیم دیو و نہ جانا تی کتومنش۔
دِلّی کے دکاندار
دلّی کے دکانداروں کی بھی عجیب شان تھی۔ صبح نو دس بجے تو گھر سے نکل کر دکان جاتے تھے۔ ذرا دوپہر ہوئی اور سورج نے سر اٹھایا تو انہوں نے نوکر سے کہہ کے پردے چھڑوا دیے۔ سفید براق چاندنی پر گاؤ تکیہ اور بغلی تکیہ لگائے مزے سے بیٹھے رہے۔ جو کوئی اللہ کا بندہ ان کی روزی کا فرشتہ بن کر آتا اسے بٹ لیتے تھے۔ یہ نہیں کہ آتے جاتے لوگوں کو بیسواؤں کی طرح اشاروں سے بلا رہے ہیں۔ پڑوسی دکانداروں کی ٹوہ میں لگے بیٹھے ہیں۔ یہی کوشش کرتے ہیں کہ بس ایک میں رہ جاؤں اور ساری دنیا سے دکانداروں کا اوڑا پھر جائے۔ توبہ توبہ انہی باتوں سے آدمی خوار ہوتا ہے۔ انسانیت سے گر جاتا ہے۔ ہاؤ ہاؤ جو کرموں لکھا سو پاؤ۔ فصیل کے اندر جو دکاندار تھے، خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ بڑے سیر چشم تھے۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے یاں تک سنا ہے کہ جب ان کی بھرت پوری ہو جاتی تھی تو گاہک کو پڑوس میں بھیج دیتے تھے۔ اول تو جہاں گلّے میں دال روٹی کے پیسے آئے اور انہوں نے نوکروں کو حکم دیا کہ چلو بھئی دکان بڑھا دو اب کہیں سیل سپاٹے کو جائیں گے۔
دلی میں تجار کو بڑی کم نگاہی سے دیکھا جاتا تھا۔ اس لیے نہیں کہ ان سے خدا واسطے کا بیر تھا بلکہ اس لیے کہ بیچارے رات دن ننانوے کے پھیر میں پڑے رہتے ہیں۔ صبح اٹھے اور چابیاں لے کر دکان کو سدھارے، شام کو آ کے گھر میں پڑ رہے۔ دلی والے جو اپنے تئیں فخر سے دلی والا کہتے تھے وہ کئی کئی گھڑیاں دیوان خانوں میں گزارتے تھے۔ ادھر ادھر کی گپیں ہانکتے، جب زبان خراد پر چڑھتی تھی اور دماغ یوں پرواز کرنے لگتا تھا جیسے معجون فلک سیر کھاتے ہوں۔
دلی کے ہر گھر میں ڈیوڑھی کے ساتھ دیوان خانہ یا بیٹھک ہوتی تھی۔ شام پڑے احباب یہاں جمع ہو جاتے اور دیر تک باتیں کیا کرتے تھے۔ باہر والوں کو جب دلی پر تنقید کرنی مقصود ہوتی ہے تو ناک چڑھا کر کہتے ہیں میاں انہیں مرچیں کھانے اور باتیں بنانے کے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔ چلئے اگر ہم صرف اتنا ہی مان لیں تو بھی یہ ہنر کیا کم ہیں۔ مرچ مسالوں سے وہ چٹپٹی چیزیں ایجاد کی ہیں کہ ان کا ذکر کیجئے تو منہ میں پانی آتا ہے۔ باہر والے الوداع کی نماز پڑھنے دلی آتے ہیں تو سینکڑوں روپے چاٹ جاتے ہیں۔ ایک نہاری کو ہی لے لیجئے، جس کے منہ لگتی ہے پھر نہیں چھوٹتی۔ بامن کی لڑکی کھائے تو کلمہ پڑھنے کو تیار ہو جائے۔ خدا غریقِ رحمت کرے چچا کبابی کو۔ جامع مسجد کے نیچے شمالی دروازے کی جانب بیٹھتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان کے پاس وہ مسالے ہیں کہ کھڑنے بجار پر لتھیڑ دیں تو گل کے گر پڑے۔
یہ تو رہی مرچیں کھانے کی بات۔ اب ذرا باتیں بنانے کا بھی ذکر ہو جائے۔ کون ہے جو ان کے سامنے زبان دانی کا دعویٰ کرے اور خجالت سے پانی نہ بھرے۔ جن بزرگوں نے کل تک میر باقر علی داستان گو کی زبانی قصے سنے ہوں گے وہ آج تک ان کی باتوں کا مزا لیتے ہیں۔ خدا کرے بزرگوں کی روح نہ شرمائے۔ وہ گالیاں دیتے تھے تو سننے والوں کو جھاڑی بوٹی کے بیروں کا مزا آتا تھا۔
جو لوگ دہلوی تہذیب کی رسی کو دانتوں سے پکڑے رہے ایک ایک کرکے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ فلک تفرقہ پرداز نے وہ تاک کے پتھر مارا کہ دلی شہر کے آثار تک نیست و نابود کردیے۔ اب لوگ جسے دلی پکارتے ہیں وہ ایک اجڑا دیار ہے۔ حویلیاں، چھتے، ڈیوڑھیاں، درو دیوار، طاق محرابیں سب دیکھتے دیکھتے دکانوں اور گوداموں کے جنگل میں بدل گئیں۔ جدھر نگاہ اٹھتی ہے پانچ چھ منزلہ مکان بنے دکھائی دیتے ہیں۔ نیچے بڑی بڑی مارکٹیں ہیں۔ زمین کھود کھود کر گودام نکالے گئے ہیں۔ دنیا کی چیزیں ان گوداموں میں بھری پڑی ہیں۔ اور خلقت کا اژدہام، خدائی خوار یوں مارا مارا پھرتا ہے جیسے کہیں سے ٹڈی دل نکل پڑا ہو۔ بھلے آدمی کو دیکھے سے وحشت ہوتی ہے۔ ایسے میں بس اپنا گھر بھلا اور آپ۔ جو لوگ میری طرح ہوسِ دنیا سے بھر پائے وہ گوشۂ عافیت میں پڑے رہتے ہیں اللہ اللہ خیر صلّا نہ دلی کا یہ حالِ خراب دیکھیں گے نہ آنکھوں سے لہو کی دھاریں بہیں گی۔
میاں اب یہ شہر غالب کے زمانے کا کیمپ اور چھاؤنی بھی نہیں۔ خدا آباد رکھے منڈی بن گیا ہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پورے ایشیا میں یہاں کے بیوپاریوں نے تجارت کا میدان مارا ہے۔ کروڑوں روپے کی روز لوٹ پھیر ہوتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ہاتھی مرے پیچھے بھی سوالا کھ کا ہوتا ہے، وہ اب دلی کا حال ہے۔ کبھی یہ بین الاقوامی شہر تھا، سیاح، فن کار، ہنر مند چار کھونٹ سے یہاں آتے تھے اور اپنے کمالات کی داد پاتے تھے، اب وہ اہل علم اور اہل کمال نہیں آتے یا کم آتے ہیں تو ان کی جگہ ہزاری بزاری کاروباریوں نے لے لی ہے۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔
قدیم دلی والے ہمیشہ کے خوش دل، خوش اطوار، خوش طبع، خوش کلام ہوتے تھے۔ انہوں نے سدا درویشانہ زندگی اختیار کی۔ ان کی نظر میں معاشی پستی اور بلندی کے کوئی معنی نہ تھے۔ انہوں نے مال کے بجائے کھال میں مست رہنا سیکھا تھا۔ دلی والا مفلسی اور ناداری کے نام سے بھی آشنا نہ تھا۔ ان کی شانِ استغنا نے انہیں ہمیشہ ہی تونگر رکھا۔ ادھی پاؤلی کے مزدور نے بھی یہاں کسی سے بات کی تو دیو جانس کلبی کا سا تیکھا پن دکھایا۔ دلی والوں کی نازک مزاجی اور بے نیازی ہمیشہ ضرب المثل بنی رہی۔ وہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ سچ ہے جب کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا، جاہ و مال کی ہوس نہیں تو پھر للّو چپو کرنے سے کیا فائدہ۔ یہاں کے لوگ اپنے اپنے فن میں طاق، عدیم المثال اور مزاج دار ایسے ہوتے تھے کہ اگر آپ انہیں قارون کا خزانہ بھی دیں تو آپ کی چاکری نہ کریں۔ ان کے پاس فن تھا، اس کے بل پر معاش کرتے تھے۔ کسی کی غلامی کرکے آقا کی ناک بھوں دیکھنا انہیں گوارا نہ تھا۔
دلی کے حکیموں کا ذکر نہیں کیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ حکیم جمیل کے ہاتھ سے ہندوستانی دواخانے کا انتظام چھینا گیا تو انہوں نے شریف منزل میں گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ والدہ کا انتقال ہوا تو بھی دروازے تک ہی کندھا دینے آئے۔ بددل ہو کر وطن مالوف سے کوچ کیا۔ دیارِ غیر میں زندگی کے بقیہ دن کاٹنے پر آمادہ ہوگئے۔ اللہ اللہ یا تو دلی والوں سے، دلی کی گلیاں نہ چھوٹتی تھیں یا وہ انقلاب آئے کہ جان و تن میں جدائی ہوگئی۔ حکیموں کے دلی پر بہت احسانات ہیں۔ مدتوں پہلے جب نزلے بخار کی وبا پھیلی تھی تو حکیم اجمل خاں نے چوراہوں پر جوشاندے کے پتیلے چڑھوا دیے تھے۔ مفت علاج کیا جاتا تھا۔ یا تو منٹ منٹ پر لہلہاتی لاشیں جا رہی تھیں یا اللہ کے حکم سے خیر عافیت ہوگئی۔ اس خاندان کے ہاتھ میں شفا تھی۔ نباض ایسے ایسے گزرے ہیں کہ سنا ہے کسی من چلے نے آزمائش کے لیے بھینس کی ٹانگ میں تاگا باندھ پردے کے پیچھے سے اس کا دوسرا سرا حکیم محمد احمد کو تھما دیا۔ حکیم صاحب نے بھوسی ٹکڑے اور کھل بنولے کا نسخہ لکھ دیا۔ بڑے بڑے راجہ نوابوں نے ان کے بل پر عیش و عشرت کی زندگی گزاری، سینکڑوں عورتوں کے حرم رکھے، لاکھوں کے نذرانے حکیم صاحب کو دیے، اراضی حق خدمت میں پیش کی۔ غریبوں کا علاج مفت کیا جاتا تھا۔ بٹوارے سے پہلے بلیماروں میں ان حکیموں کے دروازے پر بھیڑ لگی رہتی تھی۔ حکیم صاحب کو مطب سے لے کر جب ایک حکیم چلتا تھا تو پیچھے ضرورت مندوں کی بھیڑ ہوتی تھی۔ موٹریں قطار در قطار چلا کرتی تھیں۔ انہوں نے خاک بھی پڑیا میں باندھ کر دیدی تو اللہ تعالیٰ شفا عطا کرتا تھا۔ آزادی کے بعد بھی حکیم عاقل خاں اور حکیم عبدالرحیم کی زندگی میں علاج کا سلسلہ قائم رہا۔ اب یہ لوگ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
ہمدرد دواخانے کے بانی حکیم عبدالحمید کو تو آج کل والوں نے بھی دیکھا ہوگا۔ اکیلی ذات پر مجیدیا ہسپتال، میڈیکل کالج، فارمیسی تعلیم کا ادارہ، ہمدرد اسکول اور متعدد دوسرے ادارے قائم کرکے دنیا سے سدھارے ہیں۔ آخری دم تک محنت مشقت اور خلق خدا کی خدمت ان کا شعار رہا، اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، پورا ایک شہر ہمدرد نگر آباد کر گئے ہیں۔ دلی والوں کو چاہیے رات دن دعائیں دے کر ان کا حق ادا کریں۔
دِلّی کے سیلانی
دلی کے سیلانی جوڑے بڑے مشہور تھے۔ یہاں کے لوگوں کو سیر سپاٹے بڑے عزیز تھے۔ ایمانداری سے کمانا اور کھانا اڑانا دلی والوں کی زندگی کا بنیادی اصول تھا۔ کرخندار جب تک اپنی کمائی کا پیسہ پیسہ خرچ نہ کردیتے تھے کارخانے کا رخ نہیں کرتے تھے۔ عرس، فاتحہ، میلے ٹھیلے، بسنت، پھول والوں کی سیر، سلطان جی کی سترہویں، اوکھلے اور محلدار خاں کی ٹر سب شاہی زمانے کی طرز پر کل تک برقرار تھے۔ سڑکوں پر موٹریں تو کم دکھائی دیتی تھیں تانگے اور ریڑھیوں کا رواج تھا۔ ببر کے تکیہ سے آگے متھرا روڈ پر رات کے اندھیرے میں گیڈر بولتے تھے۔ سترہویں کے موقع پر دلی والے اسی اندھیرے میں ریڑھیاں، تانگے دوڑاتے، سیٹیاں بجاتے، پیری بولتے چلے جاتے تھے۔ شوقین لوگ تھے۔ گھوڑوں کو جلیبیاں کھلا کے دوڑاتے تھے۔ آگے پیچھے سواریاں دوڑتیں تو بڑا مزا آتا تھا۔ سترہویں حضرت نظام الدین اولیاء کی برسی کے موقع پر منائی جاتی تھی۔ سال میں دوسری بار یہ میلہ حضرت امیر خسرو کی برسی کے لیے منایا جاتا تھا۔ درگاہ کے ارد گرد چاروں طرف کھیل کود کے لیے جھولے ہنڈولے اور کھانے پینے کے لیے حلوے پراٹھے اور مٹھائی کچوری کی دکانیں لگائی جاتی تھیں۔ قریب کے میدانوں میں پتنگ بازی کے مقابلے ہوتے تھے۔ کشتیاں اور ٹپا بازی کے مظاہرے ہوتے تھے۔ ایک خاص مقابلہ گرامو فون ریکارڈنگ کا بھی ہوتا تھا۔ دو الگ الگ پارٹیاں آمنے سامنے بیٹھ جاتی تھیں۔ ایک طرف سے کسی اچھے گیت کا ریکارڈ بجایا جاتا تھا، پھر اسی موضوع پر دوسری پارٹی اپنا کوئی ریکارڈ بجاتی تھی، مقابلے بازی کا فیصلہ آخر میں کیا جاتا کہ کس نے مقابلتاً چھے ریکارڈ بجائے۔ اللہ اللہ کیا کیا ریکارڈ سننے کو ملتے تھے، ایک سے ایک بڑھ کر۔ ان ریکارڈ بجانے والوں کے ذوق شوق کی داد دینی پڑتی تھی۔ سال بھر تک اچھے ریکارڈ جمع کرتے اور اس مقابلے میں انہیں پیش کر کے ناموری حاصل کی جاتی تھی۔ سترہویں میں آنے والے زرق برق لباس پہن کر آتے تھے۔ عورتیں اور بچے بھی بن ٹھن کر آنے کا حق ادا کردیتے تھے۔ اندر درگاہ میں حضرت کے مزار کے قریب ایک دالان میں عورتیں قیام کرتی تھیں۔ اسی دالان سے منسلک مسجد ہے جس میں بوقت نماز اچھا خاصا مجمع ہوجاتا تھا۔ باہر صحن میں قوال بیٹھ کر گاتے تھے۔ قوالی کے بول عام لوگوں کی سمجھ بوجھ کے مطابق ہوتے تھے، کبھی کبھی وہ فارسی کی بھی غزلیں سناتے تھے، مگر وہ اس قدر عام فہم ہوگئی تھیں کہ سننے والے ان سے حظ اٹھا سکیں۔ حضرت امیر خسرو کا رنگ بڑے زور شور سے گایا جاتا تھا۔ مجاور ادھر ادھر لوگوں کی مدارات کرتے پھرتے تھے۔ درگاہ کے قریب ہی عرس محل تھا، جہاں خواجہ حسن نظامی ایک مسند پر تشریف رکھتے تھے اور اعلیٰ درجے کے قوالوں کی جوڑیاں اس عرس محل میں خواص پسند غزلیں اور فارسی شعراء کا کلام بڑے اہتمام سے پیش کرتی تھیں۔ اس محفل میں دلی کے عمائدین اور خواص مدعو کیے جاتے تھے، اس لیے یہاں بڑا صاف ستھرا ماحول اور ادبی فضا ہوا کرتی تھی۔ خواجہ حسن نظامی کو دلی والے ضرور جانتے ہوںگے، آج بھی ان کا نام لیے جانے پر لوگوں کو ان کے گھر کی محفلیں یاد آجائیں گی۔ منادی اخبار میں لوگوں نے ان کی جاوداں نثر کا مطالعہ کیا ہوگا۔ بڑے عمدہ نثرنگار اور جادو بیان بزرگ تھے۔ا ن کے کارناموں کا ذکر کیاجائے تو ایک دفتر مرتب ہوجائے گا۔ خدا سلامت رکھے، ان کے صاحبزادے خواجہ حسن ثانی نظامی بقید حیات ہیں اور اپنی وضع داری کو نبھارہے ہیں، مگر وہ مولوی مدن والی بات اب کہاں۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ قوالیوں کے بجائے لوگ آج کل کی دھواں دھار میوزک کے عادی ہیں۔ اردو اور فارسی غزلوں کے سمجھنے والے اللہ کو پیارے ہوگئے، ایک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے، اب نہ وہ لوگ رہے جو بزرگوں سے عقیدت رکھتے تھے، نہ وہ لوگ رہے جو سیر سپاٹے کے شوقین تھے اور سال بھر کی کمائی دو چار دن میں پھونک دیتے تھے۔ یہ سب کچھ آج بھی ہوتا ہے مگر اس میں پہلی سی مزیداری نہیں، بقول غالب، چراغ بے نور ہے۔ چار سو اندھیرے کی عمل داری ہے۔ یادوں کی برات سے خوش ہونے کا سامان مہیا کیجیے اور شکر کیجیے کہ ابھی کچھ تو ہے کل یہ بھی نہ رہے گا تو آپ کیا کرلیںگے۔ گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را۔
دلی کے میلوں میں پتنگ بازی کے مقابلے بھی ضرور ہوتے تھے۔ بڑے بڑے ہاتھ لگتے تھے۔ ان مقابلوں کے لیے دنوں پہلے سے مانجھے سوتے جاتے تھے۔ آرڈر پر تکلیں بنتی تھیں، جہاز کی جہاز پتنگیں ہوتیں اور اتنی اتنی دور تک بڑھایا جاتا تھا کہ وہ پار نکل جاتی تھیں، پھر جو کھنچائی ہوتی تو گڈیاں سدھ کھڑی ہوجاتی تھیں۔ کچھ پتنگ باز ایسے تھے کہ صرف ڈھیل کے پینچ لڑاتے تھے، ان کی انگلیاں سدھی ہوئی تھیں۔ جدھر چاہتے پتنگیں جھونک کھا جاتی تھیں۔ بل دینے پر آتے تو تگنی کا ناچ نچا دیتے تھے۔ بچنے والا لاکھ بچاتا مگر ان کے پھندے سے نکلنا مشکل تھا۔ منہ سے منہ ملے اور دونوں حریفوں نے ڈھیل دینی شروع کی۔ سیروں ڈور پلا دیتے تھے۔ ایک نے ذرا غوطہ مارا تو دوسرے نے پٹیا چھوڑا۔ وہ کاٹا وہ کاٹا کا شور مچ گیا۔ کٹی ہوئی پتنگ کی ڈور ہاتھ پرسے توڑ دی جاتی تھی۔ غریب لوٹنے والے لوٹ لوٹ کر بڑی بڑی انٹیاں بنالیتے تھے۔ اسی ڈور اور لوٹی ہوئی پتنگ سے وہ اپنا دل بہلاتے تھے۔
دلی میں فالیس پر جانے کا بھی راوج بن گیا تھا۔ گرمیوں کی چاندنی رات میں لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان اور گانے والیوں کو لے کر جمنا کنارے ریتیلی فالیس پر پہنچ جاتے تھے۔ رات بھر کا میلہ ہوتا تھا، سفید سفید چاندنیوں کے فرش پر لمبے چوڑے دسترخوان بچھتے، مزے مزے کے کھانے کھائے جاتے اور کھانے سے فارغ ہو کر جو گانے کی محفل ہوتی تو لوگ جھوم جھوم اٹھتے تھے۔ بڑی ٹھسے دار مجرے والیاں تھیں، غزل گا کر سمجھا تیں تو ایک ایک مصرع دلوں پر نقش ہوجاتا تھا۔ ان گانے والیوں کے رعب حسن سے تماشائی تھراتے تھے۔ مجال نہیں کہ کوئی نظر بھر کر دیکھ لے، آگے چل کر جب طوائفوں کا بازار بند ہوا اور اس فن میں چھچھور پن کا دخل بڑھنے لگا تو دلی والوں نے گراموفون ریکارڈنگ کا ہنر ایجاد کیا اور اس کا لطف اٹھانے لگے۔
بسنت کے موقع پر بھولو کے تکیہ اور محلدار خاں کے باغ میں ایسی محفل ہوتی اور داد عیش دی جاتی تھی کہ اس کے بیان سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ برسات میں امریوں کی سیر کی جاتی تھی۔ جہاز محل اور اولیا مسجد کے تلاؤ پر بیٹھ کر آم پراٹھے کھائے جاتے۔’ جھولا کن ڈار و رے امریاں‘، دلی کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا یہ گیت آج بھی لوگوں کے دلوں کو گرماتا ہے۔ مہرولی کی ملائی بہت مشہور تھی۔ خوش خوراک پٹھے تو سیروں ملائی چٹ کر جاتے تھے۔ دلی والوں کے برسات میں چنونے کاٹتے تھے۔ سر پر بوند پڑی اور ان کی آنکھوں میں ہوا بھری، مہرولی میں درگاہ کے پاس مستقل کمرے بنے ہوئے تھے جو سیلانیوں کو کرائے پر اٹھائے جاتے تھے۔ لوگ آ آکر یہاں ٹھہرتے اور برسات کا مزا لوٹتے تھے۔
مہرولی میں برائے نام آبادی ہونے اور اریب قریب سبزہ زار کی وجہ سے آب و ہوا اچھی تھی، لوگ اس صحت افزا ماحول میں کچھ دن رہ کر شہر کی کسلمندی دور کیا کرتے تھے۔ دلی کے مغل بادشاہ بھی کچھ دن کے لیے بنفس نفیس مہرولی میں قیام کرتے تھے۔ جہاز محل اور پھول والوں کی سیر اسی بادشاہی میلے کی یادگار ہے، جس کا مزا لینا چاہو تو مرزا فرحت اللہ بیگ کا مضمون پھول والوں کی سیر پڑھ لو۔ دم بخود رہ جاؤگے کہ اللہ ایسا بھی ایک زمانہ گزرا ہے۔ افسوس ہم نہ دیکھ سکے۔
دلی کے سیلانی جوڑے بڑے مشہور تھے۔ یہاں کے لوگوں کو سیر سپاٹے بڑے عزیز تھے۔ ایمانداری سے کمانا اور کھانا اڑانا دلی والوں کی زندگی کا بنیادی اصول تھا۔ کرخندار جب تک اپنی کمائی کا پیسہ پیسہ خرچ نہ کردیتے تھے کارخانے کا رخ نہیں کرتے تھے۔ عرس، فاتحہ، میلے ٹھیلے، بسنت، پھول والوں کی سیر، سلطان جی کی سترہویں، اوکھلے اور محلدار خاں کی ٹر سب شاہی زمانے کی طرز پر کل تک برقرار تھے۔ سڑکوں پر موٹریں تو کم دکھائی دیتی تھیں تانگے اور ریڑھیوں کا رواج تھا۔ ببر کے تکیہ سے آگے متھرا روڈ پر رات کے اندھیرے میں گیڈر بولتے تھے۔ سترہویں کے موقع پر دلی والے اسی اندھیرے میں ریڑھیاں، تانگے دوڑاتے، سیٹیاں بجاتے، پیری بولتے چلے جاتے تھے۔ شوقین لوگ تھے۔ گھوڑوں کو جلیبیاں کھلا کے دوڑاتے تھے۔ آگے پیچھے سواریاں دوڑتیں تو بڑا مزا آتا تھا۔ سترہویں حضرت نظام الدین اولیاء کی برسی کے موقع پر منائی جاتی تھی۔ سال میں دوسری بار یہ میلہ حضرت امیر خسرو کی برسی کے لیے منایا جاتا تھا۔ درگاہ کے ارد گرد چاروں طرف کھیل کود کے لیے جھولے ہنڈولے اور کھانے پینے کے لیے حلوے پراٹھے اور مٹھائی کچوری کی دکانیں لگائی جاتی تھیں۔ قریب کے میدانوں میں پتنگ بازی کے مقابلے ہوتے تھے۔ کشتیاں اور ٹپا بازی کے مظاہرے ہوتے تھے۔ ایک خاص مقابلہ گرامو فون ریکارڈنگ کا بھی ہوتا تھا۔ دو الگ الگ پارٹیاں آمنے سامنے بیٹھ جاتی تھیں۔ ایک طرف سے کسی اچھے گیت کا ریکارڈ بجایا جاتا تھا، پھر اسی موضوع پر دوسری پارٹی اپنا کوئی ریکارڈ بجاتی تھی، مقابلے بازی کا فیصلہ آخر میں کیا جاتا کہ کس نے مقابلتاً چھے ریکارڈ بجائے۔ اللہ اللہ کیا کیا ریکارڈ سننے کو ملتے تھے، ایک سے ایک بڑھ کر۔ ان ریکارڈ بجانے والوں کے ذوق شوق کی داد دینی پڑتی تھی۔ سال بھر تک اچھے ریکارڈ جمع کرتے اور اس مقابلے میں انہیں پیش کر کے ناموری حاصل کی جاتی تھی۔ سترہویں میں آنے والے زرق برق لباس پہن کر آتے تھے۔ عورتیں اور بچے بھی بن ٹھن کر آنے کا حق ادا کردیتے تھے۔ اندر درگاہ میں حضرت کے مزار کے قریب ایک دالان میں عورتیں قیام کرتی تھیں۔ اسی دالان سے منسلک مسجد ہے جس میں بوقت نماز اچھا خاصا مجمع ہوجاتا تھا۔ باہر صحن میں قوال بیٹھ کر گاتے تھے۔ قوالی کے بول عام لوگوں کی سمجھ بوجھ کے مطابق ہوتے تھے، کبھی کبھی وہ فارسی کی بھی غزلیں سناتے تھے، مگر وہ اس قدر عام فہم ہوگئی تھیں کہ سننے والے ان سے حظ اٹھا سکیں۔ حضرت امیر خسرو کا رنگ بڑے زور شور سے گایا جاتا تھا۔ مجاور ادھر ادھر لوگوں کی مدارات کرتے پھرتے تھے۔ درگاہ کے قریب ہی عرس محل تھا، جہاں خواجہ حسن نظامی ایک مسند پر تشریف رکھتے تھے اور اعلیٰ درجے کے قوالوں کی جوڑیاں اس عرس محل میں خواص پسند غزلیں اور فارسی شعراء کا کلام بڑے اہتمام سے پیش کرتی تھیں۔ اس محفل میں دلی کے عمائدین اور خواص مدعو کیے جاتے تھے، اس لیے یہاں بڑا صاف ستھرا ماحول اور ادبی فضا ہوا کرتی تھی۔ خواجہ حسن نظامی کو دلی والے ضرور جانتے ہوںگے، آج بھی ان کا نام لیے جانے پر لوگوں کو ان کے گھر کی محفلیں یاد آجائیں گی۔ منادی اخبار میں لوگوں نے ان کی جاوداں نثر کا مطالعہ کیا ہوگا۔ بڑے عمدہ نثرنگار اور جادو بیان بزرگ تھے۔ا ن کے کارناموں کا ذکر کیاجائے تو ایک دفتر مرتب ہوجائے گا۔ خدا سلامت رکھے، ان کے صاحبزادے خواجہ حسن ثانی نظامی بقید حیات ہیں اور اپنی وضع داری کو نبھارہے ہیں، مگر وہ مولوی مدن والی بات اب کہاں۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ قوالیوں کے بجائے لوگ آج کل کی دھواں دھار میوزک کے عادی ہیں۔ اردو اور فارسی غزلوں کے سمجھنے والے اللہ کو پیارے ہوگئے، ایک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے، اب نہ وہ لوگ رہے جو بزرگوں سے عقیدت رکھتے تھے، نہ وہ لوگ رہے جو سیر سپاٹے کے شوقین تھے اور سال بھر کی کمائی دو چار دن میں پھونک دیتے تھے۔ یہ سب کچھ آج بھی ہوتا ہے مگر اس میں پہلی سی مزیداری نہیں، بقول غالب، چراغ بے نور ہے۔ چار سو اندھیرے کی عمل داری ہے۔ یادوں کی برات سے خوش ہونے کا سامان مہیا کیجیے اور شکر کیجیے کہ ابھی کچھ تو ہے کل یہ بھی نہ رہے گا تو آپ کیا کرلیںگے۔ گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را۔
دلی کے میلوں میں پتنگ بازی کے مقابلے بھی ضرور ہوتے تھے۔ بڑے بڑے ہاتھ لگتے تھے۔ ان مقابلوں کے لیے دنوں پہلے سے مانجھے سوتے جاتے تھے۔ آرڈر پر تکلیں بنتی تھیں، جہاز کی جہاز پتنگیں ہوتیں اور اتنی اتنی دور تک بڑھایا جاتا تھا کہ وہ پار نکل جاتی تھیں، پھر جو کھنچائی ہوتی تو گڈیاں سدھ کھڑی ہوجاتی تھیں۔ کچھ پتنگ باز ایسے تھے کہ صرف ڈھیل کے پینچ لڑاتے تھے، ان کی انگلیاں سدھی ہوئی تھیں۔ جدھر چاہتے پتنگیں جھونک کھا جاتی تھیں۔ بل دینے پر آتے تو تگنی کا ناچ نچا دیتے تھے۔ بچنے والا لاکھ بچاتا مگر ان کے پھندے سے نکلنا مشکل تھا۔ منہ سے منہ ملے اور دونوں حریفوں نے ڈھیل دینی شروع کی۔ سیروں ڈور پلا دیتے تھے۔ ایک نے ذرا غوطہ مارا تو دوسرے نے پٹیا چھوڑا۔ وہ کاٹا وہ کاٹا کا شور مچ گیا۔ کٹی ہوئی پتنگ کی ڈور ہاتھ پرسے توڑ دی جاتی تھی۔ غریب لوٹنے والے لوٹ لوٹ کر بڑی بڑی انٹیاں بنالیتے تھے۔ اسی ڈور اور لوٹی ہوئی پتنگ سے وہ اپنا دل بہلاتے تھے۔
دلی میں فالیس پر جانے کا بھی راوج بن گیا تھا۔ گرمیوں کی چاندنی رات میں لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان اور گانے والیوں کو لے کر جمنا کنارے ریتیلی فالیس پر پہنچ جاتے تھے۔ رات بھر کا میلہ ہوتا تھا، سفید سفید چاندنیوں کے فرش پر لمبے چوڑے دسترخوان بچھتے، مزے مزے کے کھانے کھائے جاتے اور کھانے سے فارغ ہو کر جو گانے کی محفل ہوتی تو لوگ جھوم جھوم اٹھتے تھے۔ بڑی ٹھسے دار مجرے والیاں تھیں، غزل گا کر سمجھا تیں تو ایک ایک مصرع دلوں پر نقش ہوجاتا تھا۔ ان گانے والیوں کے رعب حسن سے تماشائی تھراتے تھے۔ مجال نہیں کہ کوئی نظر بھر کر دیکھ لے، آگے چل کر جب طوائفوں کا بازار بند ہوا اور اس فن میں چھچھور پن کا دخل بڑھنے لگا تو دلی والوں نے گراموفون ریکارڈنگ کا ہنر ایجاد کیا اور اس کا لطف اٹھانے لگے۔
بسنت کے موقع پر بھولو کے تکیہ اور محلدار خاں کے باغ میں ایسی محفل ہوتی اور داد عیش دی جاتی تھی کہ اس کے بیان سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ برسات میں امریوں کی سیر کی جاتی تھی۔ جہاز محل اور اولیا مسجد کے تلاؤ پر بیٹھ کر آم پراٹھے کھائے جاتے۔’ جھولا کن ڈار و رے امریاں‘، دلی کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا یہ گیت آج بھی لوگوں کے دلوں کو گرماتا ہے۔ مہرولی کی ملائی بہت مشہور تھی۔ خوش خوراک پٹھے تو سیروں ملائی چٹ کر جاتے تھے۔ دلی والوں کے برسات میں چنونے کاٹتے تھے۔ سر پر بوند پڑی اور ان کی آنکھوں میں ہوا بھری، مہرولی میں درگاہ کے پاس مستقل کمرے بنے ہوئے تھے جو سیلانیوں کو کرائے پر اٹھائے جاتے تھے۔ لوگ آ آکر یہاں ٹھہرتے اور برسات کا مزا لوٹتے تھے۔
مہرولی میں برائے نام آبادی ہونے اور اریب قریب سبزہ زار کی وجہ سے آب و ہوا اچھی تھی، لوگ اس صحت افزا ماحول میں کچھ دن رہ کر شہر کی کسلمندی دور کیا کرتے تھے۔ دلی کے مغل بادشاہ بھی کچھ دن کے لیے بنفس نفیس مہرولی میں قیام کرتے تھے۔ جہاز محل اور پھول والوں کی سیر اسی بادشاہی میلے کی یادگار ہے، جس کا مزا لینا چاہو تو مرزا فرحت اللہ بیگ کا مضمون پھول والوں کی سیر پڑھ لو۔ دم بخود رہ جاؤگے کہ اللہ ایسا بھی ایک زمانہ گزرا ہے۔ افسوس ہم نہ دیکھ سکے۔
دِلّی کے پرانے شہدے
ماہرین یادش بخیر۔کل کی بات ہے کہ دلی میں شادی کی وہ کون سی محفل تھی جہاں دلی کے پرانے شہدے نہ پہنچتے ہوں۔ نکاح ختم ہوتے ہی ان کے یہ بول محفل میں گونجنے لگتے تھے، ’’ الٰہی سازگاری ہو، محمد کا صدقہ ،الٰہی دولہا ست پوتا ہو،دولہا باوا کو پوتے پڑپوتے کھلانے نصیب ہوں۔ اللہ کرے، آمین، دلوائیے حضور سیدھے ہاتھ سے ہزار روپے اوردوشالہ ہم شہدوں کو۔ خدا حضور کو سلامت رکھے۔ خدا کا دیدار ہو، محمد کی شفاعت، سازگاری ہو، برخورداری ہو۔‘‘ اس کے بعد شہدے اور بھاٹ مل کریہ بول گاتے تھے۔’’ گوندھ لاری مالن پھولوں کا سہرا، آج بنا بنی کو مبارک ہو سہرا۔‘‘
اس وقت واقعی یہ محسوس ہوتا تھا کہ سچ مچ شادی کی محفل ہے اور سہرے کے پھول دولہا اور دلہن پر نچھاور ہورہے ہیں۔اس کے بعد وہ انعام مانگیں گے اور آپ کی مجال نہیں کہ انہیں باتوں میں ٹال سکیں۔سچ پوچھو تو یہ شہدے حقیقت میں منگلا مکھی تھے، ان کی صورتیں صرف خوشی یا شادی بیاہ کے موقع پر ہی دیکھنے کو ملتی تھیں۔ یہ نہ ہوتے توساری محفل سونی نظر آتی تھی، یہی شہدے برات کے ساتھ جہیز کی کھانچیاں اٹھوانے کا کام بھی کرتے تھے۔ یہی دلہن کا پلنگ یا چھپرکھٹ سجا سجو کر دولہا کے گھر لے جاتے تھے۔
دلی میں قدیم دور سے یہ رسم چلی آئی تھی کہ دلہن کا پلنگ صرف شہدے اٹھاتے تھے، ان کے سوا کوئی دوسرا نہیں اٹھا سکتا تھا۔ چونکہ عورتیں شادی کی پہلی رات کو تخت کی رات کہتی تھیں، ان شہدوں نے بھی اسی مناسبت سے اس پلنگ کو اپنی اصطلاح میں ڈھائی گھڑی کا تخت کہنا شروع کردیا۔ یہ شہدے اصل میں ہیں کون۔ کیوں کر ان کا یہ نام پڑا اور آئے کہاں سے۔یہ پلنگ اٹھانے کی رسم ان کے ساتھ کیونکر مخصوص ہوئی۔ اس کے تعلق سے سید احمد دہلوی نے اپنی تالیف’’ فرہنگ آصفیہ‘‘ میں لکھا ہے۔’’ایک فرقہ ہے جو اکثر ننگے پائوں اور ننگے سر رہتا ہے اور شادیوں میں دلہن کا پلنگ اٹھاتا ہے، جیسا یہ فرقہ گالی گلوچ میں مشہور ہے ویسا ہی دیانت دار بھی ہے۔ ادبی درجے کے شہدے وہ ہیں جو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ شہدا ان کا نام دو وجہ سے مشہور ہوا۔ اول تو یہ کہ ان لوگوں کو بات بات پر نبی جی کی قسم کھانے کی عادت ہے، دوسری بات یہ ہے کہ شاید جھوٹی گواہی دینے سے بھی انکار نہیں ہوتا‘‘۔ خود شہدوں کا یہ کہنا ہے کہ تیمور بادشاہ جب کربلائے معلی گیا تو دیگر تبرکات کے علاوہ اسے وہ پلنگ مبارک بھی حاصل ہوا جو خاتون جنت بی بی فاطمہ ؓ کا تھا۔ تیمور نے یہ پلنگ ایسے لوگوں کے سپرد کیا جو سادات میں سے تھے اور شہدے کہلاتے تھے یا بعد میں کہلانے لگے۔وہ شہدے اس پلنگ کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ سروں پر رکھ کر تیمور کے ہمراہ ہندوستان لائے۔یہاں آکر جب یہ خدمت پوری ہوگئی تو تیمور نے حکم دیا کہ اب تم ڈھائی گھڑی کا تخت اٹھایا کرو۔ چنانچہ آج تک اسے شہدے ہی اٹھاتے ہیں۔ ممکن ہے خاتون جنت کا پلنگ لانے اور بعد ازاں ڈھائی گھڑی کا تخت اٹھانے کی یہ حکایت محض دلہنوں کا پلنگ اٹھانے کی رسم کو صرف اپنے سے منسوب کرنے کے لیے گھڑی گئی ہو، لیکن اس سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ یہ فرقہ اس وقت کربلائے معلی میں موجود تھا اور وہیں سے ہندوستان آیا۔ کچھ عجب نہیں کہ تیمور ہی ان کو اپنے ساتھ لایا ہو۔ اصل میں شہدائے کربلا کے کچھ تبرکات تیمور ہندوستان لایا تھا۔ ان کو وہ ہمیشہ اپنے لشکر کے کجاووں میں رکھتا تھا۔اور جب کربلا کے ہوش ربا واقعات سنتا تو ان کجاووں کو بنظر احترام اپنے سامنے تختوں پر رکھولیتا تھا۔ تیمور نے ان کجاووں کو اٹھانے اور رکھنے کی رسم کی خدمت ان شہدوں کے سپرد کی تھی۔ بہرحال اس فرقے کے قدیم اور شاہی ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ سید وزیر حسن دہلوی نے ’’دلی کی آخری دیدار‘‘ میں لکھا ہے۔
’’قلعہ میں جونہی سواری صدر دروازے کنے آتی، امیر امراء پایہ چھوڑالگ ہوجاتے۔ توپیں دغتیں، زنبوریں چھوٹتیں، ساری فوج فرا سلامی اتارتی۔ شہدوں میں سے ایک آواز لگاتا ،الٰہی یہ سال ایک ہزار بار نصیب ہوں، باقی اس زور سے آمین کہتے کہ خاصّے کے گھوڑے بھی چمک اٹھتے۔بادشاہ سلامت بھر بھر مٹھیاں روپے، دو انّیاں، چوّنیاں پھینکتے، سواری رسان رسان آگے بڑھتی تھی۔‘‘ پھول والوں کی سیر کے موقع پر بادشاہ سلامت کی نقرئی پلنگڑی ان ہی شہدوں کے حوالے کی جاتی تھی ۔ وہ اسے لے کر مہرولی پہنچتے اور سیر کے بعد خود ہی واپس لاکر انعام پاتے تھے۔سرکار برطانیہ کی طرف سے بھی یہ انعام ایک مدت تک شہدوں کو ملتا رہا۔
قطب صاحب میں اولیاء مسجد کے قریب ایک شکستہ عمارت ’’ مقبرہ چہل تن چہل من‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ زیارت گاہِ خواص و عوام ہے۔ اس کے احاطے میں چالیس قبروں کے سوا کچھ نہیں۔ حاجی شہدے نے ان قبروں کے بارے میں بتایا کہ ’’ سب قبریں ان کے بزرگوں کی تھیں،ان بزرگوں کی محبتوں میں اس گنبد میں قریب نصف صدی پہلے چند شہدے رہتے تھے۔حاجی شہدے سب کے منڈ تھے،ان کا اصلی نام حبیب الرحمن تھا، حاجی ہونے کے سبب حاجی شہدے مشہور ہوگئے۔ان کے دادا جمّن جمعدار کو لال قلعے سے شہدوں کی جمعداری کا خلعت ملتا تھااور تنخواہ بھی مقرر تھی۔ شادی بیاہ کے علاوہ شہدے اکثر موقعوں پر رئیسوں اور نوابین کے مونڈتے کھاتے تھے۔پھول والوں کی سیر کے موقعہ پر مینا بازار کے کوٹھوں کے نیچے کھڑے ہوکر چیختے چلاتے اور انعام اینٹھتے تھے۔عید، بقر عید کے موقعوں پر قلعے کے امراء اور شہر کے نوابوں اور رئیسوں کے گھر جاتے اور تنخواہ وصول کرتے تھے۔جب ان رئیسوں کی عزت وآبرو یا جان کو خطرہ پیش آتا تو صحیح معنوں میںان کے حمایتی بن کر مددگار ثابت ہوتے اور ان کی خاطر اپنی جان لڑادیتے تھے۔ آمدنی کی کثرت اور فراوانی نے ایک طرف تو ان شہدوں اور ان کی عورتوں کو فکر معاش سے اس درجہ بے نیاز کردیا تھا کہ وہ صبح سے شام تک جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے رہتے تھے ۔سیڑھیاں چاٹ چاٹ کر اپنی دبی نعمت اور آقائوں کے حق میں دعائے ترقی عمر و دولت و اقبال کیا کرتے تھے،دوسری طرف ان بگڑے ہوئے رئیسوں اور ان کے آوارہ مزاج لڑکوں کو یہ موقع دیتے تھے کہ وہ آمدنی کی خاطر ان شہدوں میں آکر شامل ہوجاتے۔ان کے تمام رنگ ڈھنگ اختیار کرتے، ان کے شریک کار بن جاتے اور زندگی مزے سے گزارتے تھے۔
مشتاق عاشقی میں بے کیف ہے تقدس
جو عشق کے مزے ہیں سارے شہدپن میں ہیں
بعد غدر جب افراد شاہی میں سے بعض بد قسمت شہزادوں نے اپنے ہی نمک خواروں کے یہاں ڈیوڑھی پر رہ کر ایک مدت تک ان کی چلمیں بھری ہوںاور شہزادیوں نے گھروں میں ماما گیری کی ہو تو نوابوں اور رئیسوں کا شہدہ بن جانا کون سی دشوار بات تھی۔لہٰذالوگوں کا یہ کہنا کہ ان شہدوں میں بہت سے نوابوں اور رئیسوں کے لڑکے بھی شامل تھے ۔ واللہ اعلم۔
ماہرین یادش بخیر۔کل کی بات ہے کہ دلی میں شادی کی وہ کون سی محفل تھی جہاں دلی کے پرانے شہدے نہ پہنچتے ہوں۔ نکاح ختم ہوتے ہی ان کے یہ بول محفل میں گونجنے لگتے تھے، ’’ الٰہی سازگاری ہو، محمد کا صدقہ ،الٰہی دولہا ست پوتا ہو،دولہا باوا کو پوتے پڑپوتے کھلانے نصیب ہوں۔ اللہ کرے، آمین، دلوائیے حضور سیدھے ہاتھ سے ہزار روپے اوردوشالہ ہم شہدوں کو۔ خدا حضور کو سلامت رکھے۔ خدا کا دیدار ہو، محمد کی شفاعت، سازگاری ہو، برخورداری ہو۔‘‘ اس کے بعد شہدے اور بھاٹ مل کریہ بول گاتے تھے۔’’ گوندھ لاری مالن پھولوں کا سہرا، آج بنا بنی کو مبارک ہو سہرا۔‘‘
اس وقت واقعی یہ محسوس ہوتا تھا کہ سچ مچ شادی کی محفل ہے اور سہرے کے پھول دولہا اور دلہن پر نچھاور ہورہے ہیں۔اس کے بعد وہ انعام مانگیں گے اور آپ کی مجال نہیں کہ انہیں باتوں میں ٹال سکیں۔سچ پوچھو تو یہ شہدے حقیقت میں منگلا مکھی تھے، ان کی صورتیں صرف خوشی یا شادی بیاہ کے موقع پر ہی دیکھنے کو ملتی تھیں۔ یہ نہ ہوتے توساری محفل سونی نظر آتی تھی، یہی شہدے برات کے ساتھ جہیز کی کھانچیاں اٹھوانے کا کام بھی کرتے تھے۔ یہی دلہن کا پلنگ یا چھپرکھٹ سجا سجو کر دولہا کے گھر لے جاتے تھے۔
دلی میں قدیم دور سے یہ رسم چلی آئی تھی کہ دلہن کا پلنگ صرف شہدے اٹھاتے تھے، ان کے سوا کوئی دوسرا نہیں اٹھا سکتا تھا۔ چونکہ عورتیں شادی کی پہلی رات کو تخت کی رات کہتی تھیں، ان شہدوں نے بھی اسی مناسبت سے اس پلنگ کو اپنی اصطلاح میں ڈھائی گھڑی کا تخت کہنا شروع کردیا۔ یہ شہدے اصل میں ہیں کون۔ کیوں کر ان کا یہ نام پڑا اور آئے کہاں سے۔یہ پلنگ اٹھانے کی رسم ان کے ساتھ کیونکر مخصوص ہوئی۔ اس کے تعلق سے سید احمد دہلوی نے اپنی تالیف’’ فرہنگ آصفیہ‘‘ میں لکھا ہے۔’’ایک فرقہ ہے جو اکثر ننگے پائوں اور ننگے سر رہتا ہے اور شادیوں میں دلہن کا پلنگ اٹھاتا ہے، جیسا یہ فرقہ گالی گلوچ میں مشہور ہے ویسا ہی دیانت دار بھی ہے۔ ادبی درجے کے شہدے وہ ہیں جو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ شہدا ان کا نام دو وجہ سے مشہور ہوا۔ اول تو یہ کہ ان لوگوں کو بات بات پر نبی جی کی قسم کھانے کی عادت ہے، دوسری بات یہ ہے کہ شاید جھوٹی گواہی دینے سے بھی انکار نہیں ہوتا‘‘۔ خود شہدوں کا یہ کہنا ہے کہ تیمور بادشاہ جب کربلائے معلی گیا تو دیگر تبرکات کے علاوہ اسے وہ پلنگ مبارک بھی حاصل ہوا جو خاتون جنت بی بی فاطمہ ؓ کا تھا۔ تیمور نے یہ پلنگ ایسے لوگوں کے سپرد کیا جو سادات میں سے تھے اور شہدے کہلاتے تھے یا بعد میں کہلانے لگے۔وہ شہدے اس پلنگ کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ سروں پر رکھ کر تیمور کے ہمراہ ہندوستان لائے۔یہاں آکر جب یہ خدمت پوری ہوگئی تو تیمور نے حکم دیا کہ اب تم ڈھائی گھڑی کا تخت اٹھایا کرو۔ چنانچہ آج تک اسے شہدے ہی اٹھاتے ہیں۔ ممکن ہے خاتون جنت کا پلنگ لانے اور بعد ازاں ڈھائی گھڑی کا تخت اٹھانے کی یہ حکایت محض دلہنوں کا پلنگ اٹھانے کی رسم کو صرف اپنے سے منسوب کرنے کے لیے گھڑی گئی ہو، لیکن اس سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ یہ فرقہ اس وقت کربلائے معلی میں موجود تھا اور وہیں سے ہندوستان آیا۔ کچھ عجب نہیں کہ تیمور ہی ان کو اپنے ساتھ لایا ہو۔ اصل میں شہدائے کربلا کے کچھ تبرکات تیمور ہندوستان لایا تھا۔ ان کو وہ ہمیشہ اپنے لشکر کے کجاووں میں رکھتا تھا۔اور جب کربلا کے ہوش ربا واقعات سنتا تو ان کجاووں کو بنظر احترام اپنے سامنے تختوں پر رکھولیتا تھا۔ تیمور نے ان کجاووں کو اٹھانے اور رکھنے کی رسم کی خدمت ان شہدوں کے سپرد کی تھی۔ بہرحال اس فرقے کے قدیم اور شاہی ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ سید وزیر حسن دہلوی نے ’’دلی کی آخری دیدار‘‘ میں لکھا ہے۔
’’قلعہ میں جونہی سواری صدر دروازے کنے آتی، امیر امراء پایہ چھوڑالگ ہوجاتے۔ توپیں دغتیں، زنبوریں چھوٹتیں، ساری فوج فرا سلامی اتارتی۔ شہدوں میں سے ایک آواز لگاتا ،الٰہی یہ سال ایک ہزار بار نصیب ہوں، باقی اس زور سے آمین کہتے کہ خاصّے کے گھوڑے بھی چمک اٹھتے۔بادشاہ سلامت بھر بھر مٹھیاں روپے، دو انّیاں، چوّنیاں پھینکتے، سواری رسان رسان آگے بڑھتی تھی۔‘‘ پھول والوں کی سیر کے موقع پر بادشاہ سلامت کی نقرئی پلنگڑی ان ہی شہدوں کے حوالے کی جاتی تھی ۔ وہ اسے لے کر مہرولی پہنچتے اور سیر کے بعد خود ہی واپس لاکر انعام پاتے تھے۔سرکار برطانیہ کی طرف سے بھی یہ انعام ایک مدت تک شہدوں کو ملتا رہا۔
قطب صاحب میں اولیاء مسجد کے قریب ایک شکستہ عمارت ’’ مقبرہ چہل تن چہل من‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ زیارت گاہِ خواص و عوام ہے۔ اس کے احاطے میں چالیس قبروں کے سوا کچھ نہیں۔ حاجی شہدے نے ان قبروں کے بارے میں بتایا کہ ’’ سب قبریں ان کے بزرگوں کی تھیں،ان بزرگوں کی محبتوں میں اس گنبد میں قریب نصف صدی پہلے چند شہدے رہتے تھے۔حاجی شہدے سب کے منڈ تھے،ان کا اصلی نام حبیب الرحمن تھا، حاجی ہونے کے سبب حاجی شہدے مشہور ہوگئے۔ان کے دادا جمّن جمعدار کو لال قلعے سے شہدوں کی جمعداری کا خلعت ملتا تھااور تنخواہ بھی مقرر تھی۔ شادی بیاہ کے علاوہ شہدے اکثر موقعوں پر رئیسوں اور نوابین کے مونڈتے کھاتے تھے۔پھول والوں کی سیر کے موقعہ پر مینا بازار کے کوٹھوں کے نیچے کھڑے ہوکر چیختے چلاتے اور انعام اینٹھتے تھے۔عید، بقر عید کے موقعوں پر قلعے کے امراء اور شہر کے نوابوں اور رئیسوں کے گھر جاتے اور تنخواہ وصول کرتے تھے۔جب ان رئیسوں کی عزت وآبرو یا جان کو خطرہ پیش آتا تو صحیح معنوں میںان کے حمایتی بن کر مددگار ثابت ہوتے اور ان کی خاطر اپنی جان لڑادیتے تھے۔ آمدنی کی کثرت اور فراوانی نے ایک طرف تو ان شہدوں اور ان کی عورتوں کو فکر معاش سے اس درجہ بے نیاز کردیا تھا کہ وہ صبح سے شام تک جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے رہتے تھے ۔سیڑھیاں چاٹ چاٹ کر اپنی دبی نعمت اور آقائوں کے حق میں دعائے ترقی عمر و دولت و اقبال کیا کرتے تھے،دوسری طرف ان بگڑے ہوئے رئیسوں اور ان کے آوارہ مزاج لڑکوں کو یہ موقع دیتے تھے کہ وہ آمدنی کی خاطر ان شہدوں میں آکر شامل ہوجاتے۔ان کے تمام رنگ ڈھنگ اختیار کرتے، ان کے شریک کار بن جاتے اور زندگی مزے سے گزارتے تھے۔
مشتاق عاشقی میں بے کیف ہے تقدس
جو عشق کے مزے ہیں سارے شہدپن میں ہیں
بعد غدر جب افراد شاہی میں سے بعض بد قسمت شہزادوں نے اپنے ہی نمک خواروں کے یہاں ڈیوڑھی پر رہ کر ایک مدت تک ان کی چلمیں بھری ہوںاور شہزادیوں نے گھروں میں ماما گیری کی ہو تو نوابوں اور رئیسوں کا شہدہ بن جانا کون سی دشوار بات تھی۔لہٰذالوگوں کا یہ کہنا کہ ان شہدوں میں بہت سے نوابوں اور رئیسوں کے لڑکے بھی شامل تھے ۔ واللہ اعلم۔