١٩٤٧ کا نا مساعد دور گذر چکا تھا.شہر کی رونقیں بڑھنے لگیں تھیں صفائی ستھرائی کرنے والے مہتر جو شہر کے باہر رہتے تھے اور آئے دن کے ہنگاموں اور خون خرابوں کے ڈر سے شہر کا رُخ نہیں کرتے تھے وہ بھی ایک ایک کرکے گھرو ں کی صفائی ستھرائی کے لئے آنے لگے ، ہمارامحلہ جو بلی ماران میںکوچہ رحمان کے پھاٹک سے گلی جوگی واڑہ تک پھیلا ہوا ہے اسکے گھروں سے فضلااور غلاظتیں اُٹھانے اورڈیوڑھیوں کو صاف رکھنے کے کام پر پیرو نام کی مہترانی مامور تھی ، اُن دنوں پرانی دِلّی میں فلش سسٹم کا کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا گھروں میں صحن کے آخیر ی حصہ میں ڈیوڑھیوں سے متصل مختصر سی چہار دیواری کے اندر دویاتین کھڈیاں بنی ہوئی ہوتی تھیں اگر جگہ زیادہ ہوتی تو چار کھڈیاں بھی بنوالی جاتیں، ان صفائی کرنے والوںکا ایک باقا عدہ نظام تھا جو مہترانیاں گھر گھر جاکر غلاظت اُٹھاتیں وہ کمیرنیاں کہلاتیں اور اپنے ہی برداری کے اُس اوپری طبقہ کے تحت کام کرتیں جس طبقہ کے کسی فرد کی ملکیت میں محلہ ہوتا، یہ ملکیت اصل میں ایک قسم کی ٹھیکیداری ہوتی تھی جسکی اُن لوگوں میں آپسی خرید و فروخت ہوتی اور محلہ کی ما لکا محلہ دارنی کہلاتی جو کمیرنیوں کے کام کاج کی نگہداشت کرتی، اکثر یہ محلہ دارنیاں بڑی رعب داب والی ہوتیں اور کوئی جھگڑا ٹنٹا ہوجائے توبا زارو مردوں کی طرح ایسی مغلظات بے نکت سناتیں کہ رہے نام سائیں کا۔
پیرو کو میں نے بچپن میں دیکھا تھا وہ صبح آٹھ نو بجے کے درمیان اپنے چاندی کے زیورات سے لدی پھندی چھم چھم کرتی سب سے پہلے ہمارے گھر آتی اماں کو سلام کرتی پھر جلدی جلدی پیروں سے چاندی کے جھنا جھن، پازیب، چٹکی چھلّی، باہوں سے موٹے کڑے جن میں دو دو گھنگرو بندھے ہوتے ، ناک کی پکوڑا سی کیل ، کانوں سے بُندے اور بازؤں سے جوشن وغیرہ اتار کر ایک گلابی رنگ کے کپڑے میں لپیٹ ہماری چھوٹی چھت کی دیوار میں بنے ہوئے موکھے میں رکھکر اسکا منہ ایک بڑی لکھوری اینٹ سے ڈھانپ دیتی، پھر اپنا صاف ستھرا لباس پہ خانہ کے آگے پڑے ہوئے دبیز ٹاٹ کے پردہ کے پیچھے جاکر تبدیل کر کام کے کپڑے پہن منہ پر لال رنگ کے کپڑے کاڈھاٹا باندھ کر نکلتی اور اپنا کام شروع کردیتی ایک کے بعد ایک گھر جاتی کھڈیاں صاف کرتی اور فضلااور غلاظت ایک لوہے کے تسلے میں بھر کر محلہ کے کونے میں بنے ہوئے ڈلاؤ پر رکھے ہوئے بڑے بڑے ٹوکروں میں ڈالتی رہتی جو ٹوکرا بھر جاتا اسے پیرو کا خاوند ببّن اپنے سر پر رکھے ہوئے کپڑے کے اینڈوے پر جما کر رکھ لیتا اوربا آوازِ بلندجیجوانوں کی خیر، جیجوان جی خیر کہتا ہوا تاکہ راہ گیر سمجھ جائیں کہ غلاظت لے جائی جارہی ہے بارہ دری شیر افگن خان میں بنے ہوئے میو نسپلٹی کے ڈلاؤ گھر میں ڈالتا رہتا، پیرو اپنا کام نپٹا کر گلی کے نل پر چکنی مٹی اور ملتانی سے رگڑ رگڑ کر ہاتھ منہ ٹا نگیں اور پیر دھو کر صاف ستھری ہوجاتی اور اپنی گو د کے بچے کو لے ہمارے گھر کی اُسی چھوٹی چھت پر آجاتی ،گھونگھٹ نکال کر دیوار کی طرف منہ کرکے اسکو دودھ پلا لیتی ، اتنے میں اسکے لگے ہوئے گھروں میں دوپہر کا کھانا تیار ہو جاتا تو وہ سوتے بچے کو ایک کپڑے پر لٹا کر اماں سے اسکا دھیان رکھنے کو کہہ ایک بڑی سی گول پرات نما سینی میں تانبے کے ٹھپے ہوئے دو بادئیے رکھ کر گھر گھر جاتی اور ہر گھر سے اپنے لئےاور اپنے ٹبر کے لئے جس میں اسکے ساس سُسر وغیرہ شامل تھے کھانالیتی گوشت کا نرا سالن یا گوشت اور سبزی کا سالن ایک بادئیے میں یکجا کرتی خالی سبزی اور دال دوسرے میں ، اس کے ساتھ ساتھ اسکو ہر گھرسے دو دو روٹیاںبھی ملتیں جو وہ پرات کے ایک کونے میں کپڑے کے اندر ڈھک کے رکھتی جاتی یہ اسکا روزینہ ہوتا جبکہ اَٹھنی یا روپیہ ماہوار بھی اسکو دیا جاتا مسلمان گھروں سے گوشت والا کھانا لینے کے بعد وہ وہ ایک صاف کپڑا اور ایک بادیا لیکر ہندؤں کے گھروں سے ان کی دہلیز پھلانگے بغیر روٹیاں سبزی اور دال وغیرہ اکھٹا کرتی ، ہندو گھروں کے اندر اسکی آر جار اس وجہ سے نہیں تھی کہ تب تک چھوت چھات کا زور نہیں ٹوٹا تھااس دوران اس کا میاں ببّن بھی اپنے کام سے فارغ ہو لنگوٹ باندھ کر گلی کے نل پر نہادھوکر تیار ہو جاتا، پیرو محلہ بھر سے کھانا جمع کر کے ہمارے گھر آکر اپنے زیورات پہنتی اور بن سنور کرگز بھر کا گھونگھٹ نکال بچے کو گود میں لیتی ببّن کھانے سے بھری پرات کوسرپر رکھے ہوئے کپڑے کے اینڈوے پر جماتا اور پیرو جیسی صاف ستھری گھونگھٹ نکالے چھما چھم کرتی آتی ویسے ہی چھم چھم کرتی ببّن کے ساتھ اپنی بستی کے لئے روانہ ہو جاتی۔
پیرو کا یہ قصہ ایک نشست کی بات نہیں بلکہ مختلف دنوں کی باتیں ہیں جن کی چولیں کچھ یوں بٹھائی ہیں: لہذاہوتا یوں کہ پیرو یا تو اپنے کام سے جلد فارغ ہوکر باتیں مٹھار نے کسی گھرمیں چلی جاتی یا اگر جس گھر میں کھانا تیار ہونے میں دیر ہوتی تو کھانے کے انتظار میں وہاں ٹک جاتی، لیکن اسکا اکثر وقت ہمارے گھر میں گذرتا، جب آتی تو ہمارے باورچی خانہ کے آگے صحن میں پھسلہ مار کر بیٹھ جاتی اماں اسوقت پکانے ریندھنے میں مصروف ہوتیں تھیں ، پیروتھی بلا کی باتونی اور اکثر ایسے ایسے محاورے استعمال کرجاتی جن میں سے بیشتر متروک ہونے کے سبب اب میرے ذہن میں بھی نہیں رہے پھر جس گھر جاتی وہاں کی کن سو ئیان یا سُن گن بھی لیتی رہتی ، اماں سے اسکی اچھی بنتی تھی جس کی وجہ غالباً ان کی گھڑی گھڑی پوربی زردہ کے پان کھانے کی عادت تھی جب پیرو آجاتی تو اماں پہلے سے بناکر رکھی ہوئی پانوں کی کترنیں وقفہ وقفہ سے اسے بھی دیتی رہتیں جیسے ہی پیرو منہ میں پان کو گھُلا کر پیک بنا لیتی ویسے ہی اسکی زبان کا تانتوا ٹوٹنے لگتا او زبان تھی کہ تا لو سے لگتی ہی نہ تھی ادھر اماں یہ کہکر لاگ لگا دیتیں کہ بہو بیٹے کلّہ چلے ستر بلا ٹلے اور پیرو شروع ہو جاتی :
ائے اماں کیا بتاؤں کیسا کل یُگ آگیا ہے وہ جو اجمیری دروزے کے باہر کوئی نئی پڑھائی کا بڑا مدرسہ کھلا ہے نااسکی تو ایسی ایسی سننے میں آرہی ہے کہ بس کانوں پہ ہاتھ دھرے ہی بنتی ہے ، بھلا غضب تو دیکھو جوان جہان لڑکیاں جنکو انکے ماں باپ نے پہلے تو کرسٹانوں کے مدرسوں میں پڑھایا چلو وہاں تو میمیں یا ہندوانیاں پڑھا یا کرتیں تھیں اب تو وہ غیر مردؤں سے جوان لڑکوں کے ساتھ پڑھ رہی ہیں ، پہلے تو یہ بیجوگ ہندوؤں پر ٹوٹا تھا اب مسلمان جیجوانوں کی عقلوں پر پردے پڑنے لگے ہیں، وہ جو نیم والے گھر میں تمہاری برادری والے ہیں ، ائے وہی سفید داڑھی والوں کی دونوں پوتیاں بھلا بتاؤ ان کے گھر کی بی بیبیاں کیسی پردہ میں رہتی ہیں ان کے یہاں توبیبیوں کی آواز تک کا پردہ ہے پر انہوں نے بھی نئی تانتی کی اپنی پوتیوں کواُس موئے مدرسہ میں انگریزی پڑھانے بٹھا دیا ہی، اماں لقمہ دیتیں ہاں بھئی سنا تو ہی، پھروپیرو شروع ہو جاتی اماں اس طرحیو اگر لڑکیوں کی آنکھ کا پانی مر گیا یا دیدہ ہوائی ہوگیا اورکل کلاں کو کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو............اماں کہتیں بہو سب کی اپنی اپنی سوچ ہی، تو کاہے کو اپنا پِتّا پانی کررہی ہی؟ خیر اماں ہم تو ٹھہرے چھوٹی ذات کے بڑوں کی باتیں بڑے جانیںمیرا ابا توکہا کرتا تھا کہ ایسا بُرا وقت آنے والا ہے جب گائیں گوبر کھائے گی اور بیٹی بر مانگے گی بھگوان نہ کرے ہم ایسا وقت دیکھیں مگر اماں لچھن ٹھیک نہیں لگ رہے یہ کہکر وہ اپنا گھونٹ ٹھیک کرتی اور بتاتی محلہ میں کس کی بہو کا پاؤں بھاری ہی، کس کی بچی کی کہاں بات چل رہی ہے ، کس کے یہاں ولادت ہوئی ہے اور ولادت کا ٹھیکرا اُٹھانے پر اسکو کیا ملا ، پھر کہتی اماں بڑے گھر والوں نے اپنی منجھلی کی بات بربر والے گھر میں سگی خالہ کے بیٹے سے لگائی ہے ،تجھے کس نے بتایا؟ اماں پوچھتیں، تو کہتی ائے مجھے کون بتاتا وہ تو منہیارن چوڑیاں پہنانے آتی ہے وہ بچی کو ہری چوڑیاں پہنانے گئی تھی اس نے مجھے بتادیااللہ جانتا ہے میں کسی کے گھر کی اندر کی کیا جانوںمیں تو بس اپنے کام سے کام رکھتی ہوں، ویسے اماںبڑوں کی مانیں تو سمدھیانا اور پاخانہ دور ہی بھلا ، اماں کہتیں مگر تجھے کیا پڑی ہے ، تو وہ کہتی ہاں مجھے کیا ،پر بات ہونٹوں نکلتی ہے تو کو ٹھوں چڑھتی ہی، خیر چاند نکلے گا تو کُل عالم دیکھ لے گا، بڑا گھر ہے ان کی بچی کے ہاتھ پیلے ہونگے تو مجھے بھی اچھا نیگ ملے گا ، میری تو یہی دعا ہے اللہ ساتھ خیریت کے سب کی بچیوں کے گھر آباد کری،اتنا کہکر نیند میں کسمساتے بچے کو تھپکیاں دیکر کہتی ا ئے ہاں امّاں تم نے ان کی بھی سُنی وہ جوسبزی منڈی سے لُٹ پِٹ کر چھوٹی گلی میں آئے ہیں ؟ امّاں کہتیں انکی کیا ہی؟ ارے امّاں کسی کی ایسی بھی نا بگڑی، پچھلے مہینے سے ان کا گھر لگا ، اب تم تو جانتی ہو میں تو اپنے کام سے کام رکھتی ہوں مجھے کیا پڑی کسی کی ہنڈیاڈوئی کی، جب سے آئے ہیں میںنے تو ان کے یہاں ایک دن بھی گوشت ، قیمہ پکتانہیں دیکھا، بس دال دپال اور سبزی چاول پر گزارہ ہی، ایک دن میں نے منہ پھوڑ کر پوچھ لیا کہ بی بی جی تمہارے سبزی منڈی والے گھر میں ساز سامان بھی نہیں بچا ؟ تو بے چاری ٹھندی سانس بھر کر بولیں بہو ہم ہی بچگئے یہ کیا کم ہے بس تن کے کپڑوں سے نکلے تھے دیکھ لو اس گھر میں ایسے پڑے ہیں جیسے کورے خالی مٹکے میں چوہا مگر امّاں لگتا ہے اچھا کھاتا پیتا گھرانہ ہوگا، بی بی ہے بھی بڑی چلن دار۔ گاڑھے سوسی کے ہی سہی مگر کپڑے قرینے سے پہنتی اور صاف ستھری رہتی ہی، پھر جو بھی پکاتی ہیں اس میں مزہ بھی ہوتا ہے اور رچاؤ بھی یہ نہیں کہ پھیکا سیٹھا یا پھسکا پھسکاہو، ایک دن دیکھا کہ گھر میں خود ہی سفیدی کرکے کالی پیلی دیواروں کو چمکا رہی ہیں، بے چاری کا مرد بیمار ہے دو چھوٹے بچے ہیں ، برتن بھانڈے کے نام پر کچھ خاص نہیں ، دو ایک رکابیاں ایک آدھ غوری اور پیالی، چنگیری کیا بس تنکوں کی ایک ڈلیا ہے جسے میں روٹیاں رکھ لیتی ہیں، مگر نا ہوتی میں گھر کو قرینے سے رکھا ہوا ہی، جب دیکھوکچھ نہ کچھ بناتی سنوارتی رہتی ہیں، شکل صورت کی بھی ہیں رنگ گورا چٹا، نکلتا ہوا قد عمر کوئی پینتیس چالیس کی ہوگی چہرے مہرے سے کسی اچھے گھر کی لگتی ہیں، نماز روزہ بھی کرتی ہیں، مجھ سے کہنے لگیں بہو ہماری تو محلہ میں ابھی جان پہچان ہے نہیں ، تو تو سب کو جانتی ہے اگر کوئی اپنے بچوں کو قرآن شریف اور لکھنا پڑھنا سکھوانا چاہے تو ہمارے گھر کا پتہ بتا دیجو، پھر تو میں نے ان کی ببتا کی پوچھ ہی لی، سبزی منڈی کے فساد میں ان کا لاکھوں کا گھر خاک ہوا ہی، دکان دیوان سب ہی کچھ مو ئے فسادیوں کی نذر ہو گیا باپ کے بڑھاپے کا سہاراماں کی آنکھ کا تارا بڑا بیٹا جو انّیس بیس برس کاکڑئیل تھا وہ جھٹ پُٹے کےوقت دکان سے گھر آتے میں مارا گیا، کہتی ہیں کہ فسادی با ہر کے تھے ،جن کی کئی دنوںسے منڈی اور محلہ میں آر جار تھی، بس مسکوٹ بناکر آئے تھے کسی کوبھانپ تک نہیں لگنے دی جن پر بس چلا انکے بھرے پرے گھر موس کے لے گئے، جو کھڑے ہوئے ان کے گھربار پھونک ڈالی۔
ایک دن باتوں باتوں میںاماں نے پوچھا بہو ببّن سے تیرا بیاہ کیسے ہوا تھا وہ اچھا خاصا پکی عمر کا ہی؟ تو ٹھنڈا سانس بھر کر کہنے لگی اماں کیا بتاؤں مجھے میٹھا برس لگا ہی تھا کہ اسکی امّاں مجھ سے بات لگانے آگئی اور میری ماں رازی ہوگئی باپ نے لا کھ کہا کہ بچی کی بساط ہی کیا ہے ابھی دو ایک برس تواس کے ہاتھ پاؤں نکلنے دومگر ببّن کی ماں تو جیسے میرے اوپر لٹّو ہوگئی تھی ہاں کروا کے ہی ٹلی ، لڈو تو میرے من میں بھی پھوٹ رہے تھے بس مہینہ بھر میں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہو گیااور میں کمیلے والی بستی سے ببّن کے گھر کاٹھ کے پُل والی بستی میں آگئی، کچھ دن بعدپتہ چلاکہ ببّن بڑا اچھا پہلوان ہے ہر شام کو اکھاڑے میں پڑا زور کرتا رہتا ہی، بردار ی کے سب ہی نامی پہلوانوں کو چت کرچکا ہے بھنگ پیتا ہے اور ہفتہ عشرہ میں رات کے وقت شراب کا نشہ بھی کرتا ہی، مجھ سے یوں تو بہت لاڈ کرتا ہے مگر اماں جب شراب پی لیتا ہے تو نجانے اس پر کونسا بھوت سوار ہو جاتا ہے جیسے ہی نشہ چڑھتا ہے کو ئی نہ کوئی بات نکال کر مجھے ایسی چار چوب کی مار مارتا ہے کہ سارے پنڈے پر نیل اُبڑ آتے ہیں، یہ کہکر وہ اپنی مضروب باہیں اور پنڈلیاں دکھاتی تو اسکی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبانے لگتیں، ایک دن پیرو جب اپنی مار کا رونا رہی تھی تو اماں نے کہا بہوتو اسکی شکایت کیوں نہیں کرتی اور میکے کیوں نہیں چلی جاتی؟ اس پر بولی اماں کیا کروں یہ میری ایک کی کہانی تھوڑی ہے ہمارے زیادہ تر مردجوان ہوں یا بوڑھے سب کے سب نشے باز ہیں ہر کوئی کسی نہ کسی طرح کا نشہ ضرور کرتا ہے ، کسی اور پر تو انکا بس چلتا نہیں سب اپنا اپنا زور اپنی اپنی جورؤں پر ایسے ہی نکالتے ہیں جیسا میرا ببّن مجھ پر نکالتا ہے ، کبھی کبار ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ شراب پی کر بے سدھ پڑ جاتا ہے تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ ہو تو نہیں گیا اور جیسے ہی میں پو چھتی ہوں وہ اُٹھ کر مارنے لگتا ہے ، خیر یہ تو روزکا ہی، اب مجھے عادت سی پڑ گئی ہے ، پر میرا ببّن دل کا بہت اچھا ہے جب نشہ میں نہیں ہو تا تو مجھ سے پیار بھی ایسا ٹوٹ کر کرتا ہے کہ اسکی دی ہوئی تکلیف یاد تک نہیں رہتی پھر مجال ہے کہ میرے بغیر اسکے منہ میں کھِیل بھی اڑکر جائے جوخود کھاتا ہے وہی مجھے کھلاتا ہی، جس رات شراب نہیں پیتا اس رات گرم گرم دودھ کے پاؤ پاؤ بھر کے دو کلہڑ لاتا ہے ایک مجھے دیتا ہے ایک خود پی کر سو تا ہی، گھر کے کام کاج میں بھی ساتھ لگا رہتا ہی، اورمجال ہے کہ سسرال میں مجھے کوئی ٹیڑھی آنکھ کرکے دیکھ لے یا ٹیڑھی بات کہے ادھر کسی نے مجھے کچھ کہا اُدھر ببّن آنکھیں نکال کر کھڑا ہوا، امّاں وہ تو اپنی مار دھاڑکو بھی مجھ سے پیار ہی سمجھتا ہے جس رات مجھے مارتاہے اس کے اگلے دن سب بھول جاتا ہے جب میں یاددلاتی ہوں تو پچھتاوے کے مارے رونے لگتا ہے تو مجھے اس پر بڑ ا ترس آتا ہے پکا وعدہ کر لیتا ہے کہ آگے سے ایسا نہیں کرےگا تو مجھے اس پراورپیار آنے لگتا ہے ، ویسے ہے بھی بڑا بھولا میں جھوٹوں بھی کچھ کہوں تو سچوں جانتا ہے مگر یہ معافی مانگنے کے دو ایک دن بعد اس پر پھر وہی بھوت سوار ہوتا ہے میں رو روکر اسکو وعدہ یاد دلاتی ہوں پر مجال ہے کہ اس کو کچھ یادآتا ہو اس طرح وہ اگلے دن پھر پچھلی کہانی دہراتا ہے ویسے تو سب ہی کہتے ہیں کہ ببّن غصہ والا بالکل نہیں، ناتو اسکی گلی محلہ میں کسی سے کین سُن ہوئی ہے ناہی اکھاڑہ میں ،کوئی کچھ کہہ بھی دیتا ہے توچپکا سن لیتا ہے ۔
ببّن تھا بھی ہی ایساجب کام پر آتا تو کیا چھوٹا کیا بڑا سب کو رُک رُک کر ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتا، جو بھی اسکے پرنام کا جواب دیتا اسکوجیجوان جی کی خیر کہکر دعا دیتا، ہنس مکھ تھامگر بے حد کم سُخن، رنگ کا کالا مشکی ، ڈیل ڈول اور کا ٹھی کا مضبوط ،طبیت کا شرمیلااگر کوئی اسے گھر کی بند موری دہانے یا کسی اور کام سے بلاتا تو موری دہانے کے لئے بانس کی لمبی لمبی کھپچیاں کندھے پر رکھے پہلے گھر کے باہر رُک کر زور سے اپنی پاٹ دار آواز میں جیجوان جی کی خیر کہکر آنے کی خبر دیتا اور جوتیاں ڈیوڑھی میں اتار تب تک گردن جھکائے ہاتھ جوڑے وہیں بیٹھا رہتا جب تک اسکو اندر آنے کو نہیںکہا جاتا، اپنا کام ختم کرلیتا تو جیجوان جی کی خیر کا نعرہ بلندکرکے اپنا کام نپٹا لینے کی اطلاع دیتاتاکہ اسکو باہر جانے دیا جائی، کو ئی کسی وجہ سے اسے ڈانٹ دیتا یا سلا واتیں سناتا تو ہاتھ جوڑے نظریں جھکائے کھڑاجیجوان جی کی خیر ، جیجوان جی کی خیر کے علاوہ مجال ہے کہ کوئی دوسرا لفظ اسکے منہ سے نکلتا ہو۔
بہر حال بات ببن کی چل نکلی مگر کہنا یہ تھاکہ ایسی ستھری زبان ، دل موہ لینے والا اندازِ بیان اوربے تکان بولنا کوئی پیرو پر ہی موقوف نہیں تھا ، اس دور میں کیا ہندو کیا مسلمان سب ہی گھرانوں کی خواتین اپنے اپنے رسم و رواج اور مذہبی طور طریقوں کے مطابق پردہ کا خاص خیال رکھتیں،حتیٰ کے بڑی بوڑھیوں سے لیکر بیاہتا بہو بیٹیاںتک سُسر، جیٹھ، دیور اور نندوئی تک سے پردہ کرتیں یا گھونگھٹ کی اوٹ نکال کر ان کے سامنے آتیں، بازار اور کٹرے تو رہے ایک طرف گلی محلوں میں پھیری لگاکر سودا بیچنے والے مردوں سے بھی کچھ خریدنا ہو تا تو گھر کی ما ماؤں کے ذریعہ ہی خرید تیں، یہی وجہ تھی کہ چٹ پٹی مسالہ دار موٹھ کی دال، آلو چھولی،شکر قند اور آلو کی کھٹی میٹھی کلیاں اور مو سم کے پھل بیچنے والی کاچھن، سردیوں میں گزگ پٹی، مونگ پھلیاںاور گرما گرم چنے بیچنے والی بھڑبھوجن، جنم جاپہ کے موقع پر آنے والی دائی جوزچہ اور نو زائیدہ بچے کی تیل مالش بھی کیا کرتی، گود کے بچوں کو نہلانے دھلانے اور انکے نا خون کترنے والی نائین، کنگھی چوٹی اور بناؤ سنگار کرنے والی مشاطہ، کپڑے لتے بیچنے والی بزاجن، کپڑوں کی کتر بیونت اور تراچ خراش کرنے والی مغلانی، سینے پرونے ،کیکری کٹاؤ اور ترپائی کا کام کرنے والی درزن، کپڑوں پر گو ٹا کناری اور ٹھپے کا کام کرنے والی زردوزن ،کپڑے دھونے اور کرتے ڈوپٹے چنّے والی دھوبن، برتن بھانڈا بیچنے والی کسیرن اور پرانے زیورات اور تسبیحوں میں پڑے ہوئے میلے ڈوروں کی جگہ رنگ برنگ کے نئے ڈورے ڈالنے کی ماہر پٹون ، یہ سب شہر بھر میں محلے محلے گھوم پھر کر اپنے کام کرتیں اور سامان بیچتیں، ہر علاقے میں جانے کے لئے ان کے دن بھی مقرر ہوتے تھی، گھروں کی بڑی بوڑھیاں رفتہ رفتہ کرکے ان ہی پھیری والیوں سے بچیوں کا پورے کاپورا دان دہیز تک بنواکر اور خرید کر جمع کرلیتیں، اس طرح دونوں طرف سے ہونے والے بھاؤ بنج، مول تول اورلین دین سے ان پھیری والیوں کی زبان ایسی سان چڑھ جاتی کہ مجال ہے ان کی گفتگو میں کہیں کسی قسم کا جھول آتا ہو، ان کی دلنشین باتیں، مٹھاس بھر الہجہ ، محاوروں کا بر محل استعمال ، جملوں کی ترتیب و ترکیب ایسا لگتا جیسے کسی ماہر مرصع ساز نے قیمتی زیور میں بڑے قرینے سے نگینے جڑے ہوں۔
ایک دن نہ تو پیرو کمانے آئی ناببّن نا ہی محلہ دارنی نظر آئی ، لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخیر ہوا کیا؟ کیونکہ مہترانیوں کا کام ہی ایسا تھا کہ اُن کی چھٹی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا ، اگلے دن تک سب گھروں کی کھڈّیاں فضلے اور غلاظت سے بھری سڑ تی رہیں مکھیوں کے جھنڈ کے جھنڈ ہر طرف بھنبھناتے ہوئے منڈلانے لگے ،لوگوں نے محلہ کے بھٹیاروں کے تندوروںکی راکھ لا لاکر بد بو اور سڑاند دبانے کے لئے کھڈّیوں میں ڈال لی تو کچھ راحت ملی، اگلے دن محلہ دارنی دوسری کمیرنی کو ساتھ لیکر آئی اور گھرگھر جاکر بتایا کہ محلہ میں سب کی آنکھوں کی تارہ پیرو پرسوں رات ببّن سے جھگڑ کر ایسی سوئی کہ پھر اُٹھ نہیں سکی ، محلہ دارنی نے پیرو کے مرنے کی خبراماںکو ببّن سے اُس کے ہونے والے جھگڑے کے واقعہ کے ساتھ سنائی تو انکا ماتھا ٹھنکا اور ہاتھ ملتے ہوئے بولیں ہئے ہئے ببن تونے یہ کیا غضب کیاپیرو نگوڑی تو دوجیا تھی۔