شخصیات
حاضر دماغ، حاضر جواب، استاد رسؔا
عظیم اختر
اللہ بخشے ہمارے استاد رساؔ نماز روزے کے بڑے پابند اور ایک نیک انسان تھے۔ان کی نگاہ میں تمام انسان اور بالخصوص کلمہ گو سب برابر تھے، لیکن بات اگر دلی اور دلی والوں کی ہوتی تویہ گاڑی فوراً پٹری سے اتر جاتی۔ان کی لغت میں جامع مسجد کے جنوبی دروازے کے اطراف کے گلی کوچے دلی اور ان گلی کوچوں میں رہنے والے ہی اصلی دلی والے تھے۔دلی کے باقی گلی کوچوں اور محلوں کو وہ نو آبادیاں اور فصیل شہر سے باہر کے رہنے والوں کو’’ غیر ملکی‘‘ کہا کرتے تھے۔وہ کھان پان رہن سہن اور زبان کے معاملے میں دلی والوں کے آگے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
اسی طرح وہ شاعری میں صرف اپنے استاد حضرت بیخود دہلوی کو ہی قطب کی لاٹ سمجھتے تھے اور کسی دوسرے شاعر کو نہیں گردانتے تھے۔اس شدت پسندانہ مزاج اورافتاد طبع کی وجہ سے وہ پرانی دہلی کے ٹھٹھول بازاروں میں بہت مقبول تھے۔پرانی دہلی والے لاگت لگا کر تفریح لیتے ہیں چنانچہ استاد کی خوب خاطر مدارت کرتے اور ہمہ وقت گھیرے رکھتے تھے، لیکن ان کے ہم عصر شعرا ء ان سے لیے دیے ہی رہتے اور ادبی زبان میں دلی کے شعری منظرنامے میں ان کو Persona Non Grataقرار دیتے تھے۔کچھ شاعر ایسے بھی تھے جو استاد سے علیک سلیک رکھنے کے باوجود ان کو درپردہ تپانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتھے تھے۔ استاد نے ایسے بلکی لینے والے شاعروں کی ایک Hit List تیار کر رکھی تھی، جس میں منہ کو آنے والے شاعروں کی تعداد میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوتا، ہاں ضرورت اور حالات کے تحت سیریل نمبروں میں تبدیلی ضرور ہوتی رہتی لیکن سر فہرست ہمیشہ ڈاکٹر کامل قریشی مرحوم کا نام ہی رہتا۔ڈاکٹر کامل قریشی دلی کی قریش برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ کروڑی مل کالج میں اردو کے استاد تھے اور شاعری میں حضرت بیخود دہلوی کے شاگرد تھے۔استاد رساؔ اور کامل قریشی گرچہ خواجہ تاش تھے لیکن نہ جانے کیوں دونوں میں نوک جھونک چلتی تھی۔ اس نوک جھونک کی وجہ شاید یہ تھی کہ ڈاکٹر کامل قریشی نے نجی گفتگو میں کسی سے کہہ دیا کہ استاد رساؔ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔وہ حضرت بیخود دہلوی کے شاگرد نہیں صوفی اخگر رامپوری کے شاگرد ہیں، جن کی کسی زمانے میں جامع مسجد کے پاس چائے کی دوکان تھی۔ یہ بات دو تین لوگوں سے ہوتی ہوئی استاد رساؔ تک پہنچی۔ وہ دلی کا دم بھرنے والے تھے بھلا ایک یو پی والے کے شاگرد کیسے ہو سکتے تھے؟چنانچہ ڈاکٹر کامل قریشی کے خلاف محاذ کھل گیا اور کسی شاگرد سے کہلوا بھیجا کہ ’’غیر ملکی حدود میں رہ ورنہ قلم چھین کر چھری، مڈی تھما دوں گا۔‘‘ استاد رساؔ کے بارے میں ڈاکٹر کامل قریشی کا بیان تو چند کانوں تک ہی محدود رہا، لیکن استاد کا جملہ پر لگا کر اڑا، سارے شہر میں پھیل گیا اور اس کی بازگشت جگہ جگہ سنائی دینے لگی۔تفریح لینے والوں کو ایک سنہری موقع ہاتھ لگ گیا، استاد رساؔ کو دیکھتے ہی ان کے تبصرے کی جامعیت پر دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے اور خوب داد دیتے۔ڈاکٹر کامل قریشی میں ترکی بہ ترکی جواب دینے کے تمام اوصاف حمیدہ موجود تھے، لیکن اس کٹیلے اور کرے کرے جملے پرپیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔ ممکن ہے انھوں نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی ہو۔
ایسے مچیٹوں میں استاد رساؔ اپنی حاضر جوابی کی وجہ سے ہمیشہ بھاری پڑتے اورمعترض و مخالف کو منہ کی کھانی پڑتی۔مخالف یا معترض منہ کی کھاتا اور استاد رسا کی گردن تن جاتی۔ایک بار ڈاکٹر کامل قریشی کی ادبی تنظیم کی جانب سے باڑہ ہندو راؤمیں مشاعرہ منعقد کیا گیا۔استاد رساؔ بھی مشاعرے میں مدعو تھے۔جب شمع سامنے آئی تو استاد نے مطلع پڑھتے ہی مشاعرہ لوٹ لیا۔نہایت ہی مرصع غزل اس پر استاد کا انداز ادائیگی اور پھر سامعین کی بے پناہ داد۔استاد نے غزل کیا سنائی جھنڈے گاڑ دئے۔مشاعرے کے بعد چائے کے دوران بہت سے سامعین نے استاد سے بند مصافحے کیے۔ کنونیر مشاعرہ نے بڑے ادب و احترام کے ساتھ استاد کوزارد راہ کا لفافہ پیش کیا، استاد نے بڑی بے نیازی سے لفافہ لے کر واسکٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔چائے کا دور ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ڈاکٹر کامل قریشی استاد کے پاس آئے، غزل کی تعریف کی اور ایک بند لفافہ استاد کی طرف بڑھا دیا۔ استاد نے بڑی بے نیازی سے لفافہ لیا اور واسکٹ کی باہر والی جیب میں رکھ لیا۔چائے کے دور کے خاتمے کے بعد شعرا چلنے لگے تو استاد نے بھی کنوینر سے اجازت چاہی اور اپنے دو تین شاگردو ں کے جلو میں مشاعرہ گاہ سے نکلے، ابھی بیس پچیس قدم ہی چلے تھے کہ ڈاکٹر کامل قریشی کی آواز سنائی دی’’استاد ٹھہریے۔‘‘ یہ آواز سن کر استاد رک گئے، پیچھے مڑ کر دیکھا تو ڈاکٹر کامل قریشی دو تین لوگوں کے ہمراہ آتے دکھائی دئے۔ڈاکٹر کامل استاد کے قریب آتے ہی پھٹ پڑے۔ ’’استاد، تمہیں شرم نہیں آتی، دو بار معائو ضہ وصول کر لیا، بے ایمانی کی کوئی حد بھی ہے، ناک کٹوادی تم نے دلی والوں کی۔‘‘ یہ کہہ کر کامل قریشی آگے بڑھے اور استاد کی واسکٹ کی باہری جیب سے جھانکتا ہوا لفافہ نکال لیا۔استاد کے شاگرد دم بخود تھے اور کامل قریشی استاد کو لعن طعن کرتے ہوئے اگلا پچھلا حساب چکا رہے تھے۔استاد خاموشی سے سب کچھ سنتے رہے، کن آنکھوں سے اپنے شاگردوں کی طرف دیکھا، ایک نظر ڈاکٹر کامل قریشی پر ڈالی اور تند لہجے میں بولے ’’گھر بلا کر دلی والے کی عزت لوٹ لی اور دولت بھی چھین لی اے ایک تو واپس کر۔‘‘ یہ کہہ کر کامل قریشی کی طرف تیزی سے بڑھے اور جھپٹا مار کر لفافہ چھین لیا۔چاروں طرف نگاہ ڈالی،اطمینان سے جیب میں لفافہ رکھااور اپنے شاگردوں کی طرف مڑ کر بولے’’چلو میاں ،چلو، بزرگوں نے سچ ہی کہا تھاکم ذہنوں کے یہاں کبھی مت جانا، وہاں عزت ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے۔یہ کہہ کر استاد رساؔ چل دیے اور کامل قریشی ہکا بکا دیکھتے رہ گئے۔
بھائی جُمّا
محمد شفیق
کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا نہ کوئی جشنِ سالگرہ ہوتا ہے اور نہ کوئی یومِ وفات۔ ایسی شخصیتیں ان دونوں کی محتاج بھی نہیں ہوتیں بلکہ ان کی یاد دلوں میں اس طرح پیوست ہوجاتی ہے جیسے ہرن کے نافے میں مشک۔
بھائی جمّا کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ ان کانام جمیل احمد خاں ہوتا یا عبدالودود، کہلاتے وہ پھر بھی بھائی جمّا ہی۔ ہماری اور ان کی عمر میں لگ بھگ چالیس سال کا فرق تھا، پھر بھی وہ ہمارے بھائی جمّا ہی تھے۔ ان کی کولکی کے آس پاس گھروں میں رہنے والے بچوں کے بھی وہ دادا، نانا نہیں، بھائی جمّا ہی تھے۔
جس طرح چاٹ یا گول گپّوں کا ذکر سن کر ہمارے منہ میں پانی بھر آتا ہے، اسی طرح بھائی جمّا کے نام کے ساتھ ہی ہم میں سےاکثر کی زبان تر ہوکر تالو سے لگ جاتی ہے۔ یا بقول شخصے، روزے دار کے سامنے بھائی جمّا کا نام آجائے تو یہ کم بخت منہ کا پانی روزہ ہی مکروہ کرادے۔
بات کالج کے زمانے کی ہی سہی،لیکن آج بھی وہ سماں یاد آتا ہے تو نظروں میں بھائی جمّا کی شخصیت اتر آتی ہے۔ اجمیر گیٹ کے بالکل سامنے، اینگلو عربک اسکول کے مغربی سرے پر واقع بھائی جمّاکی یہ کوٹھری نما دکان، چھت پر ٹنگا پنکھا، جس سے گرمی میں گرم ہی ہوا ملتی، سردی سے بچاؤ کے لئے دونوں اطراف میں پڑی ہوئی ترپالیں یا ٹاٹ کے پردے، درمیان میں اونچی سی تپائی پر بیٹھے بھائی جمّا۔ آگے خوانچے میں سجے پھل، ڈبوں میں مصالحے، پھر چاروں طرف سے بلند ہوتی صدائیں۔
"اف، بھائی جمّا، آپ نے تو یہ ہری مرچ بہت ہی تیز ڈال دی۔ سو-- ذرا کوئی میٹھا قتلہ ہی دے دیجیے"۔
"بھائی جمّا (ذرا کھینچ کر) آلو کی چار کلیاں ذرا جلدی بنا دیجیے، بیل ہونے والی ہے"۔
دیوار کی اوٹ سے کوئی مترنّم آواز ' دیکھیے بھائی جمّا، اتّی دیر ہو گئی بیٹھے بیٹھے۔ آپ نے تین پتّے نہیں دیے۔ دیکھیے، مصالحہ تیز نہ ہوجائے۔ اور ہاں نیبو بھی نچوڑ دیجیے گا۔
لنچ میں کچھہ دوسری آوازیں بھی شامل ہو جائیں۔
"بھائی جمّا - چار کلچے گرم کر دیجیے، دو پلیٹیں چھولوں کی بھی بنا دیجیے گا"۔
بھائی جمّا - وہ ہمارا لنچ بکس کہاں رکھّا آپ نے۔
"وہ - ادھر کنستری کی اوٹ میں رکھا ہے - اٹھا دینا بیٹے۔۔۔
فرمائیے، آپ کے لئے کیا بناؤں؟"
"بھائی جمّا کتّے پیسے ہوئے؟"
"کیا کیا لیا آپ نے ۔۔۔۔؟"
"دو کلچے، دو پلیٹیں چھولوں کی اور آلو کی دو کلیاں۔۔۔"
"شاید آپ نے کیلے بھی تو لیے ہیں"۔
"اوہ - وہ تو بھول ہی گیا"۔
غرض کتنی ہی بھیڑ ہو، کتنی ہی آوازیں، بھائی جمّا کی پرسکون شخصیت۔ مجال جو تیوری پر کوئی بل آجائے۔ کس کو کیا کیا دیا ہے۔ کس نے کیا کیا مانگا ہے۔ کس نے پہلے آرڈر دیا اور کس نے بعد میں۔ بھائی جمّا کی ہر چیز پر نظر رہتی تھی۔ چاہے وہ کسی کا حساب کر رہے ہوں یا آرڈر لے رہے ہوں یا کسی کی بات کا جواب دے رہے ہوں۔ آپ کے ہاتھہ اسی طرح مصروف کار رہتے جیسے کسی ماہر موسیقار کی انگلیاں ستار پر یا نامور رقاصہ کے پنجے طبلے کی تھاپ پر۔ پہلے پتّے یا پلیٹ کو کپڑے سے صاف کرنا، پھر مشاق ہاتھوں سے پھلوں کو قتلوں کی شکل دینا۔ اس پر جچے تلے انداز سے مصالحوں کی آمیزش۔ یہی ان کی چاٹ کا خاصّہ تھی۔
آفتابی چہرہ، سانولا رنگ، خوبصورت گھنی سرمئی سفید داڑھی، تنومند جسم، میانہ قد، سادہ لباس، سر پر رنگین ٹوپی، خوش اخلاق، خوش کلام اور اس پر دلّی کی ٹکسالی زبان۔ بالکل ان کے مصالحوں اور چاٹ کی طرح لطیف اور چٹ پٹی۔
انہی سب محاسن نے یکجا ہو کر جس شخصیت کو جنم دیا وہ بھائی جمّا کی شخصیت تھی۔
دراصل بھائی جمّا کی کامیابی اور مقبولیت کا راز ان کے سلیقے اور ان کے منظّم طریقہ کار میں مضمر تھا۔ دکان میں قدم رکھنے والے پر اٹھنے والی ان کی خیر مقدمی نظریں، چٹوروں کی پسند ناپسند، مطلوبہ چاٹ کا حدود اربعہ، یعنی مقدار، پھلوں کا استعمال، مصالحہ ہلکا ہو یا تیز، کھٹائی زیادہ ہو یا کم، چھولوں می دال-سیو کی آمیزش، وغیرہ وغیرہ ۔ اس سارے عمل کے بعد بھائی جمّا کے ہاتھہ سے چاٹ کا جو پتّہ نکلتا وہ طالب علمی کی زندگی کےبعد بھی ان کی کوٹھری یا دکان کا طواف ضرور کراتا تھا۔
ویسے تو بھائی جمّا کی دکان، ماسٹر جی کے ڈر سے بھاگے لڑکوں اور منچلے طلباء سے صبح سے ہی آباد ہو جاتی تھی لیکن دن چڑھنے کے ساتھہ ساتھہ جس طرح الیکشن میں ووٹنگ میں تیزی آتی جاتی ہے ٹھیک اسی طرح اسکول کی تفریح کے وقفے تک یہاں بھی پچاس فیصد "حق رائے دہندگی" کا استعمال ہو ہی جاتا ہے۔ اس کے بعد رہی سہی چالیس فیصد کی کمی کالج کی طالبات پوری کر دیتی تھیں۔ اور تو اور --- بھائی جمّا کی چاٹ، خاص کر آلو شکرقند کی کلیاں ان استادوں اور لیکچرارز کی زبان کی زینت بنتے بنتے اسٹاف روم تک پہنچ جاتیں جنھیں ان کی کوٹھری تک آتے شرم محسوس ہوتی۔
بھائی جمّا کے اردگرد نازک اندام طالبات کا جھرمٹ دیکھ کر بہت سے منچلوں میں ’بھائی جمّا’ بننے کی آرزو جنم لیتی، لیکن بے سود ۔ ۔ ۔ ۔ !۔
بھائی جمّا کی باتیں بھی دل چسپ ہوتیں۔ کسی کی آواز آئی "اوفوہ ۔۔ یہ ہری مرچ ہے یا تتیّا"۔
بھائی جمّا گویا ہوئے۔
اللہ رے یہ نزاکت آپ کی۔ میاں آپ تو ابھی بچے ہیں، ہمارے آج بھی آنکھوں میں مرچیں جھونک دیجیے، پتہ بھی نہ چلے۔ بیٹا جب ہم آپ کی عمروں کے تھے، تو یہ ہری مرچیں، یوں ہی چبا ڈالتے تھے، وہ بھی خالص پیور۔ آج کل کی ملاؤٹی نہیں ۔۔۔ بیٹا! اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ۔۔۔۔ یہ سب اس ڈالڈا کی دین ہے۔ گدّی میں عقل آئی نہیں کہ آنکھوں پر چشمہ لگ گیا۔ تیس سال کے ہوئے نہیں کہ کمر جھک گئی۔ میاں اگر یہی حال رہا تو ہماری عمروں تک کیسے پہنچیں گے۔۔۔ پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں۔
آج بھائی جمّا ہمارے بیچ نہیں لیکن گھر گھر میں موجود، ان کا مصالحہ "فروٹ چاٹ" آج بھی ان کی یاد ہمارے دلوں میں تازہ رکھے ہوئے ہے۔
بشکریہ ماہنامہ سوداگر