جوشؔ ملیح آبادی۔ ۔ ۔ دیدہ و شنیدہ
میرے والد مرحوم کو اُردو کی نئی مطبوعات منگانے کا شوق تھا۔ کتابیں اور رسالے چھپتے ہی ان کے پاس پہنچ جایا کرتے تھے ۔غالباً 1925ء یا 1926ء کا ذکر ہے کہ نئی کتابوں میں ایک کتاب ’’روحِ ادب‘‘ بھی آئی تھی۔ یہ کتاب اس زمانے میں شائع ہونے والی کتابوں سے یکسر مختلف تھی۔ اس کی ہر بات انوکھی تھی۔ ’’بانگ درا‘‘ کے سائز پر چھپی تھی، جو اس زمانے میں بالکل مروج نہیں تھا۔ کتابت و طباعت بڑی دیدہ زیب تھی۔ چند تصویریں بھی اس کتاب میں شامل تھیں ۔ ’’روحِ ادب‘‘ میں چھوٹے چھوٹے شاعرانہ مضامین تھے ۔ شاعرانہ مختصر مضامین لکھنے کا خبط اب سے چالیس سال پہلے ہر ادیب کو تھا۔ بلکہ اسے کمال نثر نگاری سمجھا جاتا تھا کہ ایسی عبارت لکھی جائے جس میں موٹے موٹے عربی فارسی الفاظ اور مغلق ترکیبیں ہوں اور اصل بات بہت ذرا سی ہو۔ بلکہ اگر اصل بات سرے سے اس میں ہو ہی نہیں تو اور بھی اچھا۔ اس صورت میں یہ تحریر ادیب کی شاہکار بن جاتی تھی۔ ایسے ہر ادیب کی ہر تحریر شاہکار تصور کی جاتی تھی۔ کتنے ہی ادیب ایسے تھے جو صرف شاہکار ہی لکھا کرتے تھے ۔ اصل میں یہ بیماری گیتانجلی کے ترجمہ سے اردو میں پھیلی تھی۔ ٹیگور کی مابعد الطبیعاتی شاعری کو یار لوگ سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں جھٹ اس کے ترجمہ پر اتر آئے ۔ چونکہ ٹیگور کو نوبل پرائز ملا تھا اس لئے یہ سمجھ لیا گیا کہ ضرور اس میں کوئی بڑے کام کی بات کہی گئی ہے ۔ حالانکہ آج تک یورپ والوں ہی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ملاری اور مانتر لنک قسم کے شاعر کیا فرما گئے ہیں کہ
ایک دروازہ کھلا
ایک دروازہ بند ہوا اور
ایک بچے کے رونے کی آواز آئی۔
انہیں یہی معلوم نہ ہو سکا کہ اس پر کہاں سر دُھنا جائے ؟ ٹیگور نے بھی یہی گر استعمال کیا اورئیٹس نے اُسے جھنڈے پر چڑھا دیا۔ اردو کی شامت اعمال، یہ کتاب کہیں سے نیازؔ فتحپوری کے ہاتھ لگ گئی۔ ’’عرض نغمہ‘‘ کے نام سے اس کا ترجمہ فوراً تیار ہو گیا۔ نام ہی دیکھ لیجئے ’’عرضِ نغمہ‘‘۔ اس کے اندر جو گیت ٹیگور کے شاہکار ہیں اسے کسی وقت فرصت سے دیکھئے گا تو اس کے جوہر آپ پر کھل جائیں گے ۔ ہمارے ادیبوں کے ہاتھ ایک سہل نسخہ لکھنے لکھانے کا آیا، لگے سب کے سب عرضِ نغمہ کرنے البتہ اتنا اضافہ ٹیگور پر اور کیا کہ اپنی تحریروں میں بہت سارے آہ ۔ ۔ ۔ ڈیش اور نقطے اور ڈنڈے (!) جہاں تہاں ڈال دئیے تا کہ پڑھنے والے اِن ڈیشوں اور ڈنڈوں سے نفس مضمون کی بھیلی پر سر پھٹول کرتے رہیں ۔ پیاز کو چھیلئے ، پرت ہی پرت اترتے چلے جائیں گے ، مغز آپ کہیں نہیں پائیں گے ۔ یہی حال اس نیازی یا پیازی ادب کا تھا جسے ’’ادبِ لطیف‘‘ موسوم کیا گیا، جو دراصل ہماری نثر کا ’’چوما چاٹی اور سانڈے کے تیل‘‘ کا دَور تھا۔
بات میں بات نکل آئی
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا بات پہنچی تری جوانی تک
ہاں تو ذکر تھا ’’روحِ ادب‘‘ کا۔ اس میں نثر پارے درج تھے ان کا اندازِ تحریر روشِ عام سے یکسر مختلف تھا۔ واقعی یہ معلوم ہوتا تھا کہ نثرمیں نظمیں لکھی گئی ہیں ۔ مصنّف کا نام تھا نواب شبیر حسین خان جو جوشؔ ملیح آبادی ہیں میں نے جوشؔ صاحب کو یہیں سے جانا پہچانا۔ اس کے بعد ’’ہمایوں ‘‘ میں ان کا کلام بالالتزام شائع ہونے لگا اور بعض اور مقتدر ادبی رسالوں میں بھی۔ ساقیؔ میں جنوری1930ء، یعنی پہلے ہی پرچہ سے جوشؔ صاحب کا کلام آنے لگا۔ 1932ء میں مجھے اپنے منجھلے بھائی مبشّر احمد اور دوسرے عزیزوں سے ملنے حیدرآباد جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے جن ادیبوں اور شاعروں سے حیدرآباد میں ملنا تھا ان کی فہرست خاصی طویل تھی۔ منجھو صاحب پولیس کے آدمی! انہیں تمام سلسلوں کی خبر تھی۔ فہرست دیکھ کر بولے ’’فرحت اللہ بیگ سے تمہیں سید وزیر حسین ملوائیں گے ۔ فانی، جوش اور علی اختر سے کرنل اشرف الحق۔ مولوی عنایت اللہ سے تابش، میں بھی ساتھ چلا چلوں گا۔ تمکین کاظمی تو یہ سامنے ادارہ علمیہ میں روز شام کو آتا ہے ۔ اور یہ ناکارہؔ اور آوارہؔ اور کون کون ہے ، انہیں تھانے میں یہیں کیوں نہ بلوا لیا جائے ؟‘‘ میں نے کہا ’’ مناسب نہیں ہو گا۔ پہلے میں ایک ایک بار سب کے یہاں ہو آؤں ۔ بولے ’’تو پھر یہ کرتے ہیں کہ تھانے میں نہیں کھانے پر سب کو بلا لیتے ہیں ۔‘‘ میں نے کہا ’’اسے بھی بعد کے لئے اُٹھا رکھو۔‘‘ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ کرنل اشرف الحق باہر ہی سے آوازیں دیتے در آئے ۔ ’’ شاہد کہاں ہے ، شاہد کہاں ہے ؟‘‘ میں دوڑکر ان سے لپٹ گیا۔ اس وقت عمر میں مجھ سے دگنے تھے ۔ میرے پھوپھی زاد بھائی تھے ۔ چودہ سال ولایت میں رہ کر ایڈنبرا سے ڈاکٹری کی سند لے کر آئے تھے اور قلعہ گولکنڈہ میں افواج باقاعدہ کے ڈاکٹر تھے ۔ اللہ اُن کی روح کو شرمائے ہر وقت اتنی پیتے تھے کہ مرنے لگتے تھے ۔ وہ شراب کو کیا چھوڑتے شراب انہیں چھوڑ دیتی تھی۔ اچھے ہونے کے بعد مہینوں نہیں پیتے تھے ، پھر کوئی دوست ہشکا دیتا اور سلسلہ پھر جاری ہو جاتا۔ مگر اتنی پینے پر بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی بہکتے یا مدہوش ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ اس قدر عجیب و غریب کردار کے آدمی تھے کہ اُن پر ایک علیحدہ مضمون لکھنے کی ضرورت ہے ۔ مختصراً یہ سمجھئیے کہ منجملہ اور صفات کے شعر کہنے کا بھی خاص ملکہ رکھتے تھے ۔ مگر ہزل تو کیا نرا کُھرا فحش۔ عریاںؔ تخلص تھا۔ شعر و شاعری کی وجہ سے حیدرآباد کے تمام شاعروں سے تعلق تھا۔ اور سب کا دم بھی ان سے نکلتا تھا کیونکہ ذرا سی بات پر فحش ہجو لکھ دیا کرتے تھے ، اور ستم بالائے ستم یہ کہ خود جا کر اسے سنا بھی دیتے تھے ۔ خیر تو ڈاکٹر صاحب سے یہ طے ہو گیا کہ جوشؔ صاحب سے مجھے وہ اگلے دن ملوا دیں گے ۔ دوسرے دن صبح دس بجے ڈاکٹر صاحب آئے اور مجھے دارالترجمہ لے گئے ۔ سب سے پہلے ابوالخیر مودودی سے ملوایا جو ابوالاعلی مودودی کے بڑے بھائی تھے ۔ دھان پان سے نرم و نازک آدمی تھے مگر ان کے لفظ لفظ میں علمیت ٹپکتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے خاص دوستوں میں سے تھے ۔ خوش اخلاقی سے کھانے پر مدعو کیا۔ مولانا عمادی سے ملوایا۔ انھوں نے بھی دعوت کی پیشکش کی۔ جوشؔ صاحب سے ملوایا۔ گرمجوشی سے ملے۔ دعوت کا دن مقرر کر لیا۔ باہر نکل کر میں نے کہا ’’بھائی جان، اگر دعوتیں ایسی فراخ دلی سے قبول کی گئیں تو منجھو صاحب بگڑ جائیں گے ۔‘‘ بولے ’’ میں منجھو صاحب کو سمجھا لوں گا۔‘‘ اس کے بعد گھڑی دیکھ کر بولے ’’ ابھی دوپہر کے کھانے میں کچھ دیر ہے ، لگے ہاتھوں علی اختر سے بھی مل لو۔ میں نے کہا چلئیے علی اختر کے گھر پہنچے ۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ لڑکا برآمد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا ’’ابّا ہیں ‘‘؟ وہ ہیں کہہ کر اندر بھاگا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’سنو۔ اُن سے بولو شاہد احمد دہلوی ملنے آئے ہیں ۔‘‘ لڑکا میرا نام جانتا تھا، ایک نظر اس نے مجھے دیکھا اور تیتری ہو گیا۔ پانچ منٹ گذر گئے واپس نہیں آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ آج کل علی اختر کے سارے جسم پر پھوڑے پھونسیاں نکل آئی ہیں ۔ دوا ملے بیٹھا ہو گا۔ دفتر سے چھٹی لے رکھی ہے ۔ بارے لڑکا منہ لٹکائے واپس آیا اور نیچی نظریں کئے بولا ’’ابّا کہیں باہر گئے ہوئے ہیں ۔ جب ہم کار میں واپس آ بیٹھے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’گھر ہی میں تھا‘‘ میں نے پوچھا’’تو ملے کیوں نہیں ؟‘‘ بولے کل معلوم ہو جائے گا۔اگلے دن ڈاکٹر صاحب علی اختر کے ہاں سے ہوتے ہوئے آئے ۔ انھوں نے بتایا کہ ’’علی اختر ملے تھے اور بہت شرمندہ تھے کہ کل تم سے نہیں ملے ۔ دراصل اس بیچارے کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ تمہاری دعوت کر سکے ۔ یہاں کا رواج یہی ہے کہ مہمان کی دعوت ضرور کی جاتی ہے ۔ انکی اس حرکت پر مجھے غصہ آیا اور ترس بھی آیا کہ محض ایک بے ہودہ رواج کے باعث اس دفعہ اُن سے ملاقات نہ ہو سکی۔
جوش صاحب کے ہاں ڈاکٹر صاحب مجھے لے گئے ۔ خاصی پُر تکلف دعوت تھی۔ دسترخوان پر ہنسی مذاق کی باتیں ہوتی رہیں ۔ ڈاکٹر صاحب بڑے زندہ دل آدمی تھے ۔ روتوں کو ہنساتے تھے ۔ جوشؔ صاحب شاعر بھی تھے اور بادہ خوار بھی، اس لئے ڈاکٹر صاحب سے انکی خوب بنتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی زبانی مجھے جوشؔ صاحب کے بہت سارے واقعات معلوم ہوئے ۔ ان میں سے چند آگے بیان ہوں گے ۔
ڈاکٹر صاحب عمدہ ولایتی شراب پیا کرتے تھے ۔جوشؔ صاحب بلا نوش تھے ، جو بھی مل جائے چڑھا جاتے تھے ۔ انہیں جب بھی فرصت ملتی شام کو ڈاکٹر صاحب کے ہاں جا پہنچتے ، عمدہ اور مفت کی ملتی تھی اس لئے گلاس پر گلاس چڑھائے چلے جاتے ۔ ڈاکٹر صاحب دو تین گلاسوں میں چھک جاتے تھے ۔ بوتل یا تو ہفتہ میں ایک خرچ ہوتی تھی یا اب تیسرے ہی دن، بیوی کہہ دیتی کہ آپ شہر جائیں تو اپنی بوتل لے آئیں ۔ شروع شروع میں تو یہ ڈھڑا چلتا رہا مگر جب مہنگا پڑنے لگا تو ڈاکٹر صاحب کے نشے ہرن ہونے لگے ۔ ایک دن شہر گئے تو ایک ولایتی بوتل بھی لے آئے اور دیسی ٹھرّے کی بھی۔ ٹھرّا دیکھ کر اُن کی بیوی چمکیں ۔ ’’جب ٹھرّا آپ کو نہیں پچتا تو آپ کیوں لائے ہیں ؟ اُس موئے شرابی نے آپ کو بھی ٹھرّے پر لگا دیا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بڑی متانت سے کہا ’’ یہ ٹھرّا اسی موئے شرابی کے لئے ہے ۔‘‘ ڈاکٹر صاحب خود گلاس کبھی نہیں بناتے تھے ۔ گھر میں بیوی بنا کر دیتی تھیں اور گھر کے باہر ایک ملازم جو ہمیشہ ساتھ رہتا تھا۔ اب یہ ہونے لگا کہ جب جوشؔ صاحب آ جاتے تو ڈاکٹر صاحب کے آواز لگانے پر ملازم دو گلاس بیگم صاحب سے بنوا کر یا خود بنا کر لاتا اور ٹھرّے والا گلاس جوشؔ صاحب کو بھڑا دیتا ۔ جوش صاحب کہتے کہ آپ بھی دیسی پینی شروع کر دی؟ تو ڈاکٹر صاحب کہتے ہاں ۔ مگر یہ دیسی اچھی ہے ۔ فریب کا یہ سلسلہ دنوں جاری رہا۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے خود ہی اس کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اُن کے دل میں کوئی بات رہتی نہیں تھی۔شاید ہر شرابی کا دل منافقت سے خالی ہو جایا کرتا ہے ۔
جب جوشؔ صاحب کے لئے نظامِ دکن میر عثمان علی خان نے ملک بدری کا فرمان جاری کیا تو مجھے کسی نے حیدرآباد سے اطلاع دی کہ ساقیؔ میں غزل گو سے خطاب جو نظم جوشؔ صاحب کی چھپی ہے اس پر عتاب ہوا ہے ۔ پیشی کے ایک منہ چڑھے آدمی نے نظام کو سندکا دیا کہ حضور یہ گستاخی جوشؔ نے آپ کی شان میں کی ہے ۔ اُس زمانے میں جریدہ شاہی اور روزنامہ رہبر دکن میں روزانہ میر عثمان علی خاں کی ایک پھسپھسی سی غزل مع رائے اُستاد جلیلؔ چھپا کرتی تھی۔ یہ رائے بھی حضرت خود ہی لکھ دیا کرتے تھے کہ ’’سبحان اللہ! کیا غزل ہوئی ہے ۔‘‘ مجھے اطلاع دینے والے نے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ شاید ریاست میں ساقیؔ کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے گا۔ مگر اس کی نوبت نہیں آئی۔ جوشؔ کو چوبیس گھنٹے میں ممالکِ محروسہ سے نکل جانے کا حکم ملا تھا۔ یہ بارہ ہی گھنٹے میں وہاں سے نکل لئے کہ کہیں ضبطی اور قید کا دوسرا فرمان جاری نہ ہو جائے ۔ ’’رہبر دکن‘‘ میں روزآنہ ذرا ذرا سی بات پر فرمان نکلتے رہتے تھے ۔ سبحان اللہ! پڑھنے کے لائق ہوتی تھی عبارت اِن فرمانوں کی۔ کاش کوئی انھیں جمع کر کے شائع کر دے ۔ خوجی اور حاجی بغلول کو آپ بھول جائیں گے ۔ خیر، یہ ایک الگ کہانی ہے ۔ دراصل نظام کے منجھلے شہزادے معظّم جاہ کے شبینہ دربار میں جوشؔ کا عمل دخل ضرورت سے زیادہ ہو گیا تھا۔ اس دربار کے واقعات سن کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ مختصراً یوں سمجھئیے کہ شر رؔ کا دربار حرام پور سے آگے گرد تھا۔ جوشؔ اس دربار کے حاضر باش تھے ۔ میں نے حیدرآباد کے ثقہ راویوں سے سنا ہے کہ معظم جاہ کے اشارے پر کُل حاضر باش ننگے ہو کر ناچنے لگتے تھے ، اور اس کے بعد جو کچھ ہوتا وہ لکھا نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی پکھیرو ذرا نہیں نکّڑ کرتا تو پیش خدمتوں کو حکم ہوتا کہ آپ کو بنا لاؤ۔ وہ اس غریب کو اٹھا لے جاتے اور پچھاڑ کر اتنی پلاتے کہ اُسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہتا، پھر اسے دربار میں برہنہ کر کے پیش کیا جاتا اور اسے اُوندھا کر کے جلتی ہوئی موم بتی لگا دی جاتی۔ یہ منظر دیکھ کر سب کے دلوں کے کنول کھل جاتے ۔ اور جب وہ ہوش میں آتا تو اس سے کہا جاتا ’’آئندہ سرکار کے کسی حکم سے سرتابی نہ کرنا۔‘‘ ان تمام بیہودگیوں کی اطلاع عالیجاہ کو پہنچتی رہتی تھی مگر وہ شفقت پدری میں مر جاتے تھے ۔ بیٹے سے تو کچھ نہ کہتے اس کے حاضر باشوں کی تاک میں لگ جاتے ۔ چنانچہ طویلے کی بلا بندر کے سر، جوشؔ پر نزلہ گرانے کا انھیں بہانہ ہاتھ آ گیا۔ حیدرآباد چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد دلّی آ گئے ۔
***
تشکر: منصف، حیدر آباد
میرے والد مرحوم کو اُردو کی نئی مطبوعات منگانے کا شوق تھا۔ کتابیں اور رسالے چھپتے ہی ان کے پاس پہنچ جایا کرتے تھے ۔غالباً 1925ء یا 1926ء کا ذکر ہے کہ نئی کتابوں میں ایک کتاب ’’روحِ ادب‘‘ بھی آئی تھی۔ یہ کتاب اس زمانے میں شائع ہونے والی کتابوں سے یکسر مختلف تھی۔ اس کی ہر بات انوکھی تھی۔ ’’بانگ درا‘‘ کے سائز پر چھپی تھی، جو اس زمانے میں بالکل مروج نہیں تھا۔ کتابت و طباعت بڑی دیدہ زیب تھی۔ چند تصویریں بھی اس کتاب میں شامل تھیں ۔ ’’روحِ ادب‘‘ میں چھوٹے چھوٹے شاعرانہ مضامین تھے ۔ شاعرانہ مختصر مضامین لکھنے کا خبط اب سے چالیس سال پہلے ہر ادیب کو تھا۔ بلکہ اسے کمال نثر نگاری سمجھا جاتا تھا کہ ایسی عبارت لکھی جائے جس میں موٹے موٹے عربی فارسی الفاظ اور مغلق ترکیبیں ہوں اور اصل بات بہت ذرا سی ہو۔ بلکہ اگر اصل بات سرے سے اس میں ہو ہی نہیں تو اور بھی اچھا۔ اس صورت میں یہ تحریر ادیب کی شاہکار بن جاتی تھی۔ ایسے ہر ادیب کی ہر تحریر شاہکار تصور کی جاتی تھی۔ کتنے ہی ادیب ایسے تھے جو صرف شاہکار ہی لکھا کرتے تھے ۔ اصل میں یہ بیماری گیتانجلی کے ترجمہ سے اردو میں پھیلی تھی۔ ٹیگور کی مابعد الطبیعاتی شاعری کو یار لوگ سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں جھٹ اس کے ترجمہ پر اتر آئے ۔ چونکہ ٹیگور کو نوبل پرائز ملا تھا اس لئے یہ سمجھ لیا گیا کہ ضرور اس میں کوئی بڑے کام کی بات کہی گئی ہے ۔ حالانکہ آج تک یورپ والوں ہی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ملاری اور مانتر لنک قسم کے شاعر کیا فرما گئے ہیں کہ
ایک دروازہ کھلا
ایک دروازہ بند ہوا اور
ایک بچے کے رونے کی آواز آئی۔
انہیں یہی معلوم نہ ہو سکا کہ اس پر کہاں سر دُھنا جائے ؟ ٹیگور نے بھی یہی گر استعمال کیا اورئیٹس نے اُسے جھنڈے پر چڑھا دیا۔ اردو کی شامت اعمال، یہ کتاب کہیں سے نیازؔ فتحپوری کے ہاتھ لگ گئی۔ ’’عرض نغمہ‘‘ کے نام سے اس کا ترجمہ فوراً تیار ہو گیا۔ نام ہی دیکھ لیجئے ’’عرضِ نغمہ‘‘۔ اس کے اندر جو گیت ٹیگور کے شاہکار ہیں اسے کسی وقت فرصت سے دیکھئے گا تو اس کے جوہر آپ پر کھل جائیں گے ۔ ہمارے ادیبوں کے ہاتھ ایک سہل نسخہ لکھنے لکھانے کا آیا، لگے سب کے سب عرضِ نغمہ کرنے البتہ اتنا اضافہ ٹیگور پر اور کیا کہ اپنی تحریروں میں بہت سارے آہ ۔ ۔ ۔ ڈیش اور نقطے اور ڈنڈے (!) جہاں تہاں ڈال دئیے تا کہ پڑھنے والے اِن ڈیشوں اور ڈنڈوں سے نفس مضمون کی بھیلی پر سر پھٹول کرتے رہیں ۔ پیاز کو چھیلئے ، پرت ہی پرت اترتے چلے جائیں گے ، مغز آپ کہیں نہیں پائیں گے ۔ یہی حال اس نیازی یا پیازی ادب کا تھا جسے ’’ادبِ لطیف‘‘ موسوم کیا گیا، جو دراصل ہماری نثر کا ’’چوما چاٹی اور سانڈے کے تیل‘‘ کا دَور تھا۔
بات میں بات نکل آئی
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا بات پہنچی تری جوانی تک
ہاں تو ذکر تھا ’’روحِ ادب‘‘ کا۔ اس میں نثر پارے درج تھے ان کا اندازِ تحریر روشِ عام سے یکسر مختلف تھا۔ واقعی یہ معلوم ہوتا تھا کہ نثرمیں نظمیں لکھی گئی ہیں ۔ مصنّف کا نام تھا نواب شبیر حسین خان جو جوشؔ ملیح آبادی ہیں میں نے جوشؔ صاحب کو یہیں سے جانا پہچانا۔ اس کے بعد ’’ہمایوں ‘‘ میں ان کا کلام بالالتزام شائع ہونے لگا اور بعض اور مقتدر ادبی رسالوں میں بھی۔ ساقیؔ میں جنوری1930ء، یعنی پہلے ہی پرچہ سے جوشؔ صاحب کا کلام آنے لگا۔ 1932ء میں مجھے اپنے منجھلے بھائی مبشّر احمد اور دوسرے عزیزوں سے ملنے حیدرآباد جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے جن ادیبوں اور شاعروں سے حیدرآباد میں ملنا تھا ان کی فہرست خاصی طویل تھی۔ منجھو صاحب پولیس کے آدمی! انہیں تمام سلسلوں کی خبر تھی۔ فہرست دیکھ کر بولے ’’فرحت اللہ بیگ سے تمہیں سید وزیر حسین ملوائیں گے ۔ فانی، جوش اور علی اختر سے کرنل اشرف الحق۔ مولوی عنایت اللہ سے تابش، میں بھی ساتھ چلا چلوں گا۔ تمکین کاظمی تو یہ سامنے ادارہ علمیہ میں روز شام کو آتا ہے ۔ اور یہ ناکارہؔ اور آوارہؔ اور کون کون ہے ، انہیں تھانے میں یہیں کیوں نہ بلوا لیا جائے ؟‘‘ میں نے کہا ’’ مناسب نہیں ہو گا۔ پہلے میں ایک ایک بار سب کے یہاں ہو آؤں ۔ بولے ’’تو پھر یہ کرتے ہیں کہ تھانے میں نہیں کھانے پر سب کو بلا لیتے ہیں ۔‘‘ میں نے کہا ’’اسے بھی بعد کے لئے اُٹھا رکھو۔‘‘ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ کرنل اشرف الحق باہر ہی سے آوازیں دیتے در آئے ۔ ’’ شاہد کہاں ہے ، شاہد کہاں ہے ؟‘‘ میں دوڑکر ان سے لپٹ گیا۔ اس وقت عمر میں مجھ سے دگنے تھے ۔ میرے پھوپھی زاد بھائی تھے ۔ چودہ سال ولایت میں رہ کر ایڈنبرا سے ڈاکٹری کی سند لے کر آئے تھے اور قلعہ گولکنڈہ میں افواج باقاعدہ کے ڈاکٹر تھے ۔ اللہ اُن کی روح کو شرمائے ہر وقت اتنی پیتے تھے کہ مرنے لگتے تھے ۔ وہ شراب کو کیا چھوڑتے شراب انہیں چھوڑ دیتی تھی۔ اچھے ہونے کے بعد مہینوں نہیں پیتے تھے ، پھر کوئی دوست ہشکا دیتا اور سلسلہ پھر جاری ہو جاتا۔ مگر اتنی پینے پر بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی بہکتے یا مدہوش ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ اس قدر عجیب و غریب کردار کے آدمی تھے کہ اُن پر ایک علیحدہ مضمون لکھنے کی ضرورت ہے ۔ مختصراً یہ سمجھئیے کہ منجملہ اور صفات کے شعر کہنے کا بھی خاص ملکہ رکھتے تھے ۔ مگر ہزل تو کیا نرا کُھرا فحش۔ عریاںؔ تخلص تھا۔ شعر و شاعری کی وجہ سے حیدرآباد کے تمام شاعروں سے تعلق تھا۔ اور سب کا دم بھی ان سے نکلتا تھا کیونکہ ذرا سی بات پر فحش ہجو لکھ دیا کرتے تھے ، اور ستم بالائے ستم یہ کہ خود جا کر اسے سنا بھی دیتے تھے ۔ خیر تو ڈاکٹر صاحب سے یہ طے ہو گیا کہ جوشؔ صاحب سے مجھے وہ اگلے دن ملوا دیں گے ۔ دوسرے دن صبح دس بجے ڈاکٹر صاحب آئے اور مجھے دارالترجمہ لے گئے ۔ سب سے پہلے ابوالخیر مودودی سے ملوایا جو ابوالاعلی مودودی کے بڑے بھائی تھے ۔ دھان پان سے نرم و نازک آدمی تھے مگر ان کے لفظ لفظ میں علمیت ٹپکتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے خاص دوستوں میں سے تھے ۔ خوش اخلاقی سے کھانے پر مدعو کیا۔ مولانا عمادی سے ملوایا۔ انھوں نے بھی دعوت کی پیشکش کی۔ جوشؔ صاحب سے ملوایا۔ گرمجوشی سے ملے۔ دعوت کا دن مقرر کر لیا۔ باہر نکل کر میں نے کہا ’’بھائی جان، اگر دعوتیں ایسی فراخ دلی سے قبول کی گئیں تو منجھو صاحب بگڑ جائیں گے ۔‘‘ بولے ’’ میں منجھو صاحب کو سمجھا لوں گا۔‘‘ اس کے بعد گھڑی دیکھ کر بولے ’’ ابھی دوپہر کے کھانے میں کچھ دیر ہے ، لگے ہاتھوں علی اختر سے بھی مل لو۔ میں نے کہا چلئیے علی اختر کے گھر پہنچے ۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ لڑکا برآمد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا ’’ابّا ہیں ‘‘؟ وہ ہیں کہہ کر اندر بھاگا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’سنو۔ اُن سے بولو شاہد احمد دہلوی ملنے آئے ہیں ۔‘‘ لڑکا میرا نام جانتا تھا، ایک نظر اس نے مجھے دیکھا اور تیتری ہو گیا۔ پانچ منٹ گذر گئے واپس نہیں آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ آج کل علی اختر کے سارے جسم پر پھوڑے پھونسیاں نکل آئی ہیں ۔ دوا ملے بیٹھا ہو گا۔ دفتر سے چھٹی لے رکھی ہے ۔ بارے لڑکا منہ لٹکائے واپس آیا اور نیچی نظریں کئے بولا ’’ابّا کہیں باہر گئے ہوئے ہیں ۔ جب ہم کار میں واپس آ بیٹھے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’گھر ہی میں تھا‘‘ میں نے پوچھا’’تو ملے کیوں نہیں ؟‘‘ بولے کل معلوم ہو جائے گا۔اگلے دن ڈاکٹر صاحب علی اختر کے ہاں سے ہوتے ہوئے آئے ۔ انھوں نے بتایا کہ ’’علی اختر ملے تھے اور بہت شرمندہ تھے کہ کل تم سے نہیں ملے ۔ دراصل اس بیچارے کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ تمہاری دعوت کر سکے ۔ یہاں کا رواج یہی ہے کہ مہمان کی دعوت ضرور کی جاتی ہے ۔ انکی اس حرکت پر مجھے غصہ آیا اور ترس بھی آیا کہ محض ایک بے ہودہ رواج کے باعث اس دفعہ اُن سے ملاقات نہ ہو سکی۔
جوش صاحب کے ہاں ڈاکٹر صاحب مجھے لے گئے ۔ خاصی پُر تکلف دعوت تھی۔ دسترخوان پر ہنسی مذاق کی باتیں ہوتی رہیں ۔ ڈاکٹر صاحب بڑے زندہ دل آدمی تھے ۔ روتوں کو ہنساتے تھے ۔ جوشؔ صاحب شاعر بھی تھے اور بادہ خوار بھی، اس لئے ڈاکٹر صاحب سے انکی خوب بنتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی زبانی مجھے جوشؔ صاحب کے بہت سارے واقعات معلوم ہوئے ۔ ان میں سے چند آگے بیان ہوں گے ۔
ڈاکٹر صاحب عمدہ ولایتی شراب پیا کرتے تھے ۔جوشؔ صاحب بلا نوش تھے ، جو بھی مل جائے چڑھا جاتے تھے ۔ انہیں جب بھی فرصت ملتی شام کو ڈاکٹر صاحب کے ہاں جا پہنچتے ، عمدہ اور مفت کی ملتی تھی اس لئے گلاس پر گلاس چڑھائے چلے جاتے ۔ ڈاکٹر صاحب دو تین گلاسوں میں چھک جاتے تھے ۔ بوتل یا تو ہفتہ میں ایک خرچ ہوتی تھی یا اب تیسرے ہی دن، بیوی کہہ دیتی کہ آپ شہر جائیں تو اپنی بوتل لے آئیں ۔ شروع شروع میں تو یہ ڈھڑا چلتا رہا مگر جب مہنگا پڑنے لگا تو ڈاکٹر صاحب کے نشے ہرن ہونے لگے ۔ ایک دن شہر گئے تو ایک ولایتی بوتل بھی لے آئے اور دیسی ٹھرّے کی بھی۔ ٹھرّا دیکھ کر اُن کی بیوی چمکیں ۔ ’’جب ٹھرّا آپ کو نہیں پچتا تو آپ کیوں لائے ہیں ؟ اُس موئے شرابی نے آپ کو بھی ٹھرّے پر لگا دیا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بڑی متانت سے کہا ’’ یہ ٹھرّا اسی موئے شرابی کے لئے ہے ۔‘‘ ڈاکٹر صاحب خود گلاس کبھی نہیں بناتے تھے ۔ گھر میں بیوی بنا کر دیتی تھیں اور گھر کے باہر ایک ملازم جو ہمیشہ ساتھ رہتا تھا۔ اب یہ ہونے لگا کہ جب جوشؔ صاحب آ جاتے تو ڈاکٹر صاحب کے آواز لگانے پر ملازم دو گلاس بیگم صاحب سے بنوا کر یا خود بنا کر لاتا اور ٹھرّے والا گلاس جوشؔ صاحب کو بھڑا دیتا ۔ جوش صاحب کہتے کہ آپ بھی دیسی پینی شروع کر دی؟ تو ڈاکٹر صاحب کہتے ہاں ۔ مگر یہ دیسی اچھی ہے ۔ فریب کا یہ سلسلہ دنوں جاری رہا۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے خود ہی اس کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اُن کے دل میں کوئی بات رہتی نہیں تھی۔شاید ہر شرابی کا دل منافقت سے خالی ہو جایا کرتا ہے ۔
جب جوشؔ صاحب کے لئے نظامِ دکن میر عثمان علی خان نے ملک بدری کا فرمان جاری کیا تو مجھے کسی نے حیدرآباد سے اطلاع دی کہ ساقیؔ میں غزل گو سے خطاب جو نظم جوشؔ صاحب کی چھپی ہے اس پر عتاب ہوا ہے ۔ پیشی کے ایک منہ چڑھے آدمی نے نظام کو سندکا دیا کہ حضور یہ گستاخی جوشؔ نے آپ کی شان میں کی ہے ۔ اُس زمانے میں جریدہ شاہی اور روزنامہ رہبر دکن میں روزانہ میر عثمان علی خاں کی ایک پھسپھسی سی غزل مع رائے اُستاد جلیلؔ چھپا کرتی تھی۔ یہ رائے بھی حضرت خود ہی لکھ دیا کرتے تھے کہ ’’سبحان اللہ! کیا غزل ہوئی ہے ۔‘‘ مجھے اطلاع دینے والے نے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ شاید ریاست میں ساقیؔ کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے گا۔ مگر اس کی نوبت نہیں آئی۔ جوشؔ کو چوبیس گھنٹے میں ممالکِ محروسہ سے نکل جانے کا حکم ملا تھا۔ یہ بارہ ہی گھنٹے میں وہاں سے نکل لئے کہ کہیں ضبطی اور قید کا دوسرا فرمان جاری نہ ہو جائے ۔ ’’رہبر دکن‘‘ میں روزآنہ ذرا ذرا سی بات پر فرمان نکلتے رہتے تھے ۔ سبحان اللہ! پڑھنے کے لائق ہوتی تھی عبارت اِن فرمانوں کی۔ کاش کوئی انھیں جمع کر کے شائع کر دے ۔ خوجی اور حاجی بغلول کو آپ بھول جائیں گے ۔ خیر، یہ ایک الگ کہانی ہے ۔ دراصل نظام کے منجھلے شہزادے معظّم جاہ کے شبینہ دربار میں جوشؔ کا عمل دخل ضرورت سے زیادہ ہو گیا تھا۔ اس دربار کے واقعات سن کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ مختصراً یوں سمجھئیے کہ شر رؔ کا دربار حرام پور سے آگے گرد تھا۔ جوشؔ اس دربار کے حاضر باش تھے ۔ میں نے حیدرآباد کے ثقہ راویوں سے سنا ہے کہ معظم جاہ کے اشارے پر کُل حاضر باش ننگے ہو کر ناچنے لگتے تھے ، اور اس کے بعد جو کچھ ہوتا وہ لکھا نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی پکھیرو ذرا نہیں نکّڑ کرتا تو پیش خدمتوں کو حکم ہوتا کہ آپ کو بنا لاؤ۔ وہ اس غریب کو اٹھا لے جاتے اور پچھاڑ کر اتنی پلاتے کہ اُسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہتا، پھر اسے دربار میں برہنہ کر کے پیش کیا جاتا اور اسے اُوندھا کر کے جلتی ہوئی موم بتی لگا دی جاتی۔ یہ منظر دیکھ کر سب کے دلوں کے کنول کھل جاتے ۔ اور جب وہ ہوش میں آتا تو اس سے کہا جاتا ’’آئندہ سرکار کے کسی حکم سے سرتابی نہ کرنا۔‘‘ ان تمام بیہودگیوں کی اطلاع عالیجاہ کو پہنچتی رہتی تھی مگر وہ شفقت پدری میں مر جاتے تھے ۔ بیٹے سے تو کچھ نہ کہتے اس کے حاضر باشوں کی تاک میں لگ جاتے ۔ چنانچہ طویلے کی بلا بندر کے سر، جوشؔ پر نزلہ گرانے کا انھیں بہانہ ہاتھ آ گیا۔ حیدرآباد چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد دلّی آ گئے ۔
***
تشکر: منصف، حیدر آباد